احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
حالات وحق واقعات کے اظہار کو باربار نکتہ چینی نہ کہتے۔ کیا اگر کوئی شخص اپنے شامت اعمال اور بداعتقادی سے ضلالت آمیز ملحدانہ طریق اختیار کرے۔ کتاب اﷲ اور سنت کے برخلاف خود غرضانہ مسائل شائع کرے۔ دغا وفریب مکرو زور سے مخلوق الٰہی کا مال جھوٹھے وعدوں اور اقراروں سے لے کر اپنی نفس پروری کرے۔ خلاف ہدایت اسلام تکبر شیخی غرور وغیرہ میں دن رات رہ کر دوسری غریب مخلوق کو ناحق لعن طعن اور توہین وتحقیر کر کے ایذا رسانی کو اپنا شیوہ وشعار بناوے اور بندۂ نفس امارہ بن کر جو چاہے سو کرے تو اس شخص کو اگر کوئی نیک بندہ بندگان الٰہی میں سے دینی نصیحت کرنے کے لئے قرآن مجید حدیث شریف کے احکام ومسائل سنائے تاکہ وہ کسی طرح راہ راست پر آجاوے تو کیا یہ نکتہ چینی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ورنہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر دین نصائح خیرخواہی انسانی کا باب ہی بند ہو جائے گا جو ہرگز منشاء الٰہی نہیں۔ یہ تو آپ کی سمجھ وبصیرت کا قصور ہے کہ آپ کو ہر راستی کجی ہی دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ قرآنی دلائل اور حدیث شریف کے مسائل والی کتاب کو بے حیثیت بے وزن وعدم ووجود برابر کہتے ہیں۔ سچ ہے ؎ بے بصیرۃ چہ شناسد سخن کامل را تلخ وشیریں بمذاق دل رنجوریکے ست بھلا فرعون بدنصیب نے عصائے موسیٰ کے مقابل ہوکر کیا کر دکھایا جو آپ اسی فرعون کے تکبر تعلّی وشیخی کے قدم بقدم ودوش بدوش ہوکر عصائے موسیٰ کا مقابلہ کر سکیں گے جب اصل سے کچھ نہ ہوا تو نقل کیا تیر مارے گی۔ یاد رکھو حق کے مقابل باطل کبھی سرسبز وبار آور نہیں ہوتا۔ حسد اور بغض سے نزاعوں کا منبع یا سرچشمہ ہونے کا شرف آپ ہی کی جماعت کو حاصل ہے۔ مرزاقادیانی کی کتابیں پراز لعن طعن وسب شتم اس کی گواہ ہیں۔ منشی الٰہی بخش کو ہرگز کسی سے کوئی نزاع وعداوۃ نہیں۔ اس نے تو مرزاقادیانی کے اصرار وتاکید پر متقی اور بے شر انسان کی طرح اصل حال راست بے کم وکاست دینی نصائح واظہار حق کی خاطر ظاہر کر دیا ہے اور زبان حال سے کہہ دیا ہے ؎ من آنچہ شرط بلاغ است باتو میگویم تو خواہ از سخنم پند گیر وخواہ ملال آگے ہدایت ہادی مطلق وبرحق اﷲ جل جلالہ کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے۔ قولہ تعالی! ’’انک لا تہدی من اجبت ولکن اﷲ یہدی من یشاء‘‘