احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء کو بغرض ملاقات مولوی صاحب موصوف مذکورہ بالا مسجد میں حاضر ہوا۔ جو باتیں میں نے عرض کی ہیں ان کو وزیرآباد کے ہزاروں آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اس کے متعلق وزیرآبادی نامہ نگار قادیانی کا چشم دید واقعہ (سفید جھوٹ) جس نے الحکم کے کالموں کو گندہ کیا ہے۔ سنئے! ۱… لکھتا ہے: ’’آج میاں امام الدین گجراتی معہ چند دیگر ہم جنسوں کے وزیرآباد واسطے تعظیم ایک کوٹھری شفاخانہ کے تشریف لائے۔‘‘ ۲… ’’چونکہ اس سال اسسٹنٹ سرجن شفاخانہ نے ان کو یہ بیہودہ حرکت شفاخانہ کے صحن میں کرنے نہ دی۔ اس لئے ایک دوسرے قبرستان میں جو حافظ معنی صاحب کے نام سے مشہور ہے اور شفاخانہ کے قریب ہے میاں امام الدین گجراتی نے معہ اپنے رفقاء کے اپنی رسم عرس کھانا وغیرہ پکا کر ادا کی اور ایسی حرکات مشرکانہ ہیں۔‘‘ پہلے فقرہ کی نسبت ہمارا یہ جواب ہے کہ حضرت یہ آپ کا ایسا سفید جھوٹ ہے کہ وزیرآباد کے کسی فرد بشر کو بھی اس سے انکار نہ ہوگا۔ میں ہرگز ہرگز کسی شفاخانہ کی کوٹھری کی تعظیم کے لئے نہیں گیا۔ نہ کوئی شخص میرے ہمراہ تھا۔ بلکہ میں تنہا صرف مولوی صاحب کی ملاقات کے لئے گیا تھا۔ کیسا شفا خانہ اور کیسی کوٹھری کی تعظیم جس قدر آدمی ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء کو رات اور دن مسجد مذکورہ میں رہے۔ نہ کوئی ان میں سے بیمار ہوا نہ کسی کو وہاں سے کسی اور جگہ جانے کی ضرورت پڑی اور اسسٹنٹ سرجن کی بھی آپ نے ایک ہی کہی۔ ہم میں سے کسی نے اس کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ نہ ہم کو معلوم ہے کہ وہ انگریز تھے یا دیسی عیسائی یا ہندو یا مسلمان یا سکھ آریا برہمو وغیرہ۔ بلکہ ایسی بہکی باتوں سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاگل پن اور جنون نے ہمارے نامہ نگار کا گھر دیکھ لیا ہے۔ آپ کے منہ پر جب وزیرآبادیوں سے راستی اور صداقت کے طمانچے لگیں گے اور ہماری وزیرآباد جانے کی اصلی غرض کی تصدیق ہوگی تو اپنی کرتوتوں کی آرسی یا آئینہ آپ کو خود بخود شرم کے سمندر میں ڈبو دے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اب مرزا گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اور اس کی قبر کے گنبد (منارہ) کی اینٹیں پک کر تیار ہورہی ہیں تو وزیرآبادی نامہ نگار کے سینہ میں پہلے سے ہی گورپرستی جوش مار رہی ہے اور جو کرتوت مرزاقادیانی کی وفات کے بعد نامہ نگار اور اس کے ہمراہیوں سے تقدیر کو کروانی ہیں اور ان کے جھوٹے اور بیجا الزام پہلے سے ہی لوگوں پر وارد کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ نہ مجھے پیشین گوئی کا دعویٰ ہے۔ نہ نجومی کی پوتھی اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ نہ مرزاقادیانی کی طرح رماّل ہوں۔ مگر تمہارے کرتوتوں کو دیکھ کر صاف کہتا ہوں کہ مرزائی