احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
موجود نہ تھا تو کیا عاجز عبدالکریم بھی موجود نہ تھا۔ جس کی ایک آنکھ، سرکا گنجہ پن، پھوڑے پھنسیاں اور ایک ٹانگ علاج طلب ہے۔ اگر مرزاقادیانی یہ کہہ کر اپنا پنڈ چھوڑانا چاہیں کہ ؎ زیک چشمی جمالت رازیان نیست کہ زیباتربود تصویر یک چشم تو مخالفین کا اس سے اطمینان نہیں ہوسکتا۔ ادھر عاجز عبدالکریم صحیح وسالم، عینک لگانے اور لاٹھی اٹھانے کی زحمت سے بری ہو جاتا ہے۔ ادھر مرزاقادیانی کے عقائد کے سبب گو مسلمان ان کو کچھ ہی کہتے۔ ادھر مشنری عیسائیوں پربھی کچھ اثر پڑ کر عجب نہ تھا کہ ان کی ہدایت کا باعث ہوتا اور ادھر مرزاقادیانی کے مرید یوسف خان اور مرزاقادیانی کی بی بی کا قریبی رشتہ دار بھائی سعید جو امرتسر والے مباحثہ کے بعد عیسائی ہوگئے تھے۔ ان کے عوض ایک دو عیسائی مسلمان ہوکر کچھ تو مکافات ہو جاتی اور کچھ نہیں تو مرزاقادیانی کو مستجاب الدعوات ہوگزرا جس کا کچھ نام ونشان ظاہر نہیں ہوا۔ اس موقعہ پر شیخی بھگارنے کا موقع دیتا۔ گو مسلمان جب بھی کہتے کہ وہ مجیب الدعوات خالق ومالک رؤف رحیم، بلا لحاظ ملت ومذہب کے ہر مضطر اور درماندہ عاجز مخلوق کی دعا بموجب ارشاد باری تعالیٰ ’’ام من یجیب المضطرّ اذا دعاہ‘‘ اور ’’ادعونی استجب لکم‘‘ سنتا اور قبول کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ بجز زبانی تقریروں اور شیخی اور چنیں چناں کے نہ آج تک مرزا سے کچھ ہوا نہ آئندہ کچھ ہونے کی امید۔ انشاء اﷲ! مرزاقادیانی برخلاف عقائد سلف وخلف کے مسیح علیہ السلام کی قبر کشمیر میں مقرر کرنے پر محض خود غرضی سے جان کنی اور محنت تو بہت کرتے ہیں۔ لیکن مسلمان جب دلائل قرآنی اور واقعات پیش کرتے ہیں تو مرزاقادیانی سے بجز معمولی بدزبانی سب وشتم، موت کی دھمکیوں وغیرہ کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ رہا قبر کا حال۔ اوّل تو آپ نے اس کو بیت المقدس میں مقررکیا ہے۔ پھر (ازالہ اوہام ص۴۷۳، خزائن ج۳ ص۳۵۳) میں کہا: ’’یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جاکرفوت ہوا۔اب حکیم نورالدین کی حمایت سے مسیح علیہ السلام کی قبر کشمیر محلہ یارخان میں مقرر کرتے ہیں اور ابھی قبر مذکور والا سلسلہ خیال جو کسور عشاریہ کی کسر متوالی یا شیطان کی آنت سے کم نہیں۔ دیکھئے کہاں تک پہنچے۔ کیونکہ ابھی تک یہ خود غرضانہ اور مجنونانہ تحقیقات درپیش ہے۔ محرری کی آسامی سے چل کر درجہ بدرجہ رسالت تک ہاتھ پاؤں مارے۔ اب دعویٰ خدائی باقی ہے۔ تھوڑا عرصہ ہوا اسی (قبر کی) تحقیقات وسراغ لگانے کے بہانے چندہ ہو کر دو تین سادہ لوح مرید برائے نام تیار ہوکر گریہ وزاری اور آہ وبکا سے ایک دوسرے کے گلے مل کر قادیان سے بظاہر رخصت ہوئے تھے۔ مگر اشک شویٔ اور چندہ مذکور ہضم ہونے پر یہ بات گاؤ خورد ہوگئی۔‘‘