احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ابراہیم علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی۔ ’’فان اﷲ یأتی بالشمس من المشرق فات بہا من المغرب فبہت الذی کفر (البقرہ:۳۵۸)‘‘ یعنی میرا خدا وہ ہے جو آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے۔ اگر تو کچھ قدرت رکھتا ہے تو مغرب سے آفتاب نکال۔ یہ سن کر نمرود حیرت زدہ ہوکر خاموش ہوگیا۔ دیکھئے نمرود تک کو ایسی مسکت دلیل نے بت بنادیا۔ مگر مرزاقادیانی کی گردن تو اپنے منارے کی طرح نمرود سے بھی کئی منزل اونچی ہے۔ کیوں مبہوت ہونے لگی۔ کس قدر احمقانہ اور طفلانہ تو ہم ہے کہ انسان کی آنکھ میں آئینے میں پانی میں عکس پڑتا ہے اور انسان خود تصویر ہے۔ اس لئے تصویر بنانا جائز ہے۔ کوئی پوچھے تو تم نے قدرتی مصنوعات پر اپنے ہاتھ کی بنائی مصنوعات کو قیاس کیا جو شیطان کی صفت ہے ؎ چھوڑ قیاس کی تو تلبیس اول من قاس ابلیس کیا مذہب اسلام نے ایسا حکم دیا ہے کہ چونکہ آئینے اور پانی وغیرہ تمام شفاف چیزوں میں عکس پڑتا ہے۔ لہٰذا تم بھی تصویریں بناؤ۔ انسان بے شک صانع مطلق کی بنائی ہوئی تصویر ہے۔ پتھر یا سونے چاندی تانبے وغیرہ دھاتوں کی بنائی یا کاغذ پر کھچی ہوئی تصویر نہیں وہ ایسی تصویر ہے جو رحم مادر میں بنتی ہے۔ جس کی تعریف میں حضرت سعدی علیہ الرحمۃ نے ایسا شعر لکھا ہے کہ دوسرا شاعر نہیں لکھ سکتا: دہد نطفہ را چوں صورت پری کہ کرداست برآب صورت گری انسان کی تصویر صانع مطلق نے پانی پر کھینچی ہے۔ بھلا مرزاا ور تمام مرزائی فراہم ہوکر ایک حرف تو پانی پر کھینچ دیں۔ ’’الحق یصور فے الارحام کیف یشاء‘‘ خدا نے تصویر بنانے کا تو معاذ اﷲ حکم دیا۔ مگر حج کرنے کا حکم نہیں دیا۔ آنحضرتa کا مفرد پیارا نام محمد اور احمد ہے اور مرزاقادیانی کا نام غلام احمد بیگ۔ پس اگر مرزاقادیانی کے خدا کو کچھ بھی عقل ہوتی تو مرزائیوں کو بجائے احمدی بنانے کے غلامی بناتا جو نام کا جزء اوّل ہے۔ جیسے موسائی، عیسائی، محمدی وغیرہ اور قدرت الٰہی کا یہی التزام ہے۔ مگر مرزاقادیانی نے قدرت الٰہی کا تعامل چھوڑ دیا اور اس میں بے معنے جعل کیا۔ اب رہا تصویر دار سکہ۔ مذہب اسلام میں کہاں حکم ہے کہ تصویر دار سکہ گھروں میں صندوقوں اور ہمیانیوں اور خزانوں میں محفوظ رکھو جس طرح مرزا طرح طرح کے حیلے سے کثیر رقم