احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
’’وﷲ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولٰکن المنافقین لا یعلمون (المنافقون:۸)‘‘ {حالانکہ (اصلی) عزت اﷲ کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کی ہے مگر منافق (اس بات سے) واقف نہیں۔} قرآن کریم نے آئندہ نبوت اور صحف آسمانی کی ضرورت کو اعلان عام کے ذریعے سے رفع کر دیا ہے۔ آئندہ نبی کی ضرورت تو اس طرح پر اٹھا دی گئی ہے کہ جناب سرورکائناتa کی رسالت کے مقاصد کسی خاص قوم میں محدود نہیں رکھے۔ بلکہ وہ تمام انسانوں کے واسطے ہیں اور آئندہ صحف آسمانی کی ضرورت کو اس طرح رفع کیا ہے کہ وہ کتاب جو اس ہادی عالمa پر اتاری گئی ہے۔ انسان کی جسمانی اور روحانی فلاح کے واسطے کافی ووافی ہے۔ اس کی موجودگی میں کسی اور صحیفہ کا خواہشمند ہونا ایک خطرناک اور قابل ملامت خواہش ہے۔ آیات جن میں آئندہ نبی کی ضرورت کو رفع کیا گیا ہے: ’’وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیراً ولکن اکثر الناس لا یعلمون (السبا:۲۸)‘‘ {اور (اے پیغمبر) ہم نے تم کو تمام (دنیا کے) لوگوں کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا ہے کہ (ان کو ایمان لانے پر ہماری خوشنودی کی) خوشخبری سنا دو اور (کفر کرنے پر ہمارے عذاب سے) ڈرا دو مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔} ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (الاحزاب:۴۰)‘‘ {محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ وہ تو اﷲ کے رسول ہیں اور سب پیغمبروں کے آخر میں ہیں۔} آیات جن میں آئندہ صحف آسمانی کی خواہش کو ایک خطرناک خواہش بتلایا گیا ہے۔ ’’فما لہم عن التذکرۃ معرضین کانہم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ بل یرید کل امری منہم ان یوتٰی صحفاً منشرۃ کلا بل لا یخافون الآخرۃ کلا انہ تذکرۃ فمن شاء ذکرہ (المدثر:۴۹تا۵۵)‘‘ {(مگر) ان لوگوں کو کیا (بلا مارگئی) ہے کہ نصیحت سے اس طرح روگردانی کرتے ہیں کہ گویا وہ (جنگلی) گدھے ہیں (اور) شیر (کی صورت) سے بدک کر بھاگتے ہیں۔ بلکہ ان کے تو یہ حوصلے ہیں کہ ان میں سے ہر شخص کو کھلے ہوئے آسمانی صحیفے دئیے جائیں سو یہ تو ہونا نہیں بلکہ (بات یہ ہے کہ یہ لوگ) آخرت ہی سے نہیں ڈرتے۔ سو یہ جھک مارنے کی بات ہے۔ کیونکہ یہی قرآن (سراسر) نصیحت ہے تو جو چاہے اس کو سوچے (سمجھے)۔} محقق گجراتی!