اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
یہ اس لئے کہ معاشرتی طور پر ہمارے خاندانوں میں "ساس" کو بڑا درجہ دیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جو چاہے کہہ سکتی ہے جب چاہے ناراض ہو سکتی ہے اور اپنی بہو کا فضیحتہ کر سکتی ہے کسی اور کو یہ حق نہیں ہے۔ اگر ہم اس بے تکلف اظہار اور محاورہ کی سماجیاتی اہمیت پر گفتگو کریں تو ہمارے معاشرہ کی ایک خاص روش سامنے آتی ہے اور گھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم رہی ہے اور مختلف رشتوں کے جو معنی ہماری زندگی میں رہے ہیں اُس پر ایک عکس ریز روشنی پڑتی ہے۔ سماج متحرک نظر آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کا عمل جاری رہتا ہے اور رہا ہے محاوروں کی زبان انداز بیان زمین زمانہ اور ذہن سے اُن کا رشتہ محاورات کی لفظی ساخت سے بھی ظاہر ہوتا ہے ان کے ایسے سماجی حوالوں سے بھی جو محاورات کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں ان کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت بہرحال باقی رہتی ہے۔ محاورات کو ہم کئی اعتبار سے دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں اُن میں سے ایک رشتہ وہ ہے جو لسانیات سے ہے مختلف زمانہ میں ہم اپنی زبان کی جس ساخت اور پرداخت سے زمینی یا زمانی رشتہ رہتا ہے وہ سلسلہ ادبیات لغت اور شعر و شعور کے دائرہ میں پہنچ کے بدل جاتا ہے اور وقت کے ساتھ بہت لفظ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں متروکات میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایک دور کے بعد ہم دوسرے دور میں انہیں استعمال نہیں کرتے زبان و ادب کے رشتہ سے جب ہم اپنی زبان کی لفظیات کو پرکھتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ گزر جانے والے وقت کے ساتھ اس کے سرمایہ الفا ظ میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں ترک و اختیار کا سلسلہ ہر زمانہ کے بعد دوسرے زمانے میں واضح یا نیم واضح طور پر سامنے آتا ہے یہ ضروری نہیں کہ جو الفاظ ایک طبقہ کی زبان سے خارج ہو جائیں وہ دوسرے طبقہ کی زبان سے بھی نکل جائیں یا جو ایک شہر کی زبان میں اپنا چلن ختم کر دیں وہ دوسرے شہر کی زبان میں بھی شامل نہ رہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مہذب شہریوں کی زبان اور لفظیات سے جو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں وہ قصبوں اور اُن کی مختلف آبادیوں کے حلقوں میں شامل رہتے ہیں ۔ میر انشاء اللہ خاں نے خود شہر دہلی کے متعلق یہ کہا ہے کہ فلاں فلاں محلے کی زبان زیادہ صحیح اور فصیح ہے بات ایک شہر سے آگے بڑھ کر دوسرے شہر تک اور شہری حدود سے تجاوز کر کے قصبات اور قصبات سے گاؤں تک پہنچتی ہے