اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔ "چھا" بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی "چھا" مزے دار نہیں ہوتی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیں ہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں "چھا" پینے کا رواج عام تھا۔ کچھ لوگ "چھا" بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری "چھا" میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میں آیا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔ اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں ۔اپنی بات کا پچ کرنا اپنی بات پر جمنا اور اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی ہے۔ "عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ۔" اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر"اڑنے" کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔اپنے نصیبوں کو رونا مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں ۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں ۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں ۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں ۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی