اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
گئی مگر بل نہیں گئے۔ اور اس کا اطلاق ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب آدمی دولت مند نہیں رہتا یا با اقتدار نہیں رہتا مگر اس کے ناز نخرے یا ادب و آداب کو پسند کرنے کا طریقہ وہی رہتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے طور طریقے وہی رہے جو نوابی کے زمانہ کے تھے یا افسری کے زمانہ کے تھے۔رفوچکر ہونا لفظی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے کہ رفو اور شئے ہے چکر کچھ اور رفو کا چکر سے کوئی تعلق نہیں جب کہ اُن دونوں سے جو محاورہ بنا ہے اس کے معنی غائب ہو جانے کے ہیں اور عام طور سے استعمال ہوتا ہے جہاں کسی آدمی سے متعلق کوئی کام کیا جا تا ہے اور وہ اس سے پہلوتہی کرتا ہے۔ اور وہاں سے غائب ہو جاتا ہے تو اُسے رفو چکر ہونا کہتے ہیں یعنی کسی ذمہ داری سے بچنا اور غیر ذمہ داری کے ساتھ نکل جانا۔رکابی مذہب ہونا رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں اور پلیٹ میں کھانا کھانا بڑی بات سمجھا جاتا تھا عام طور پر غریب آدمیوں میں یہ دستور تھا کہ ایک ہی برتن میں سب کھاتے تھے یا پھر روٹی پر رکھ کر کھاتے تھے اب جن لوگوں کے یہاں رکابی میں رکھ کر کھانے کا رواج ہوتا تھا اور اچھے لوگ سمجھے جاتے تھے ان سے لوگ قریب آتے تھے اور اُن کی خوشامدیں طرح طرح سے کرتے تھے ایسے ہی لوگ خوشامد ی نہ کہلا کر رکابیہ مذہب کہلاتے تھے یعنی ان کا مقصد خوشامد ہے اور اس خوشامد کے طور پر یہ ان کے مذہب کی بھی تعریف کرنے لگیں گے۔ اس صورتِ حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ مذہب کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا موقع ہوتا تھا اس کے مطابق مذہب اختیار کر لیتے تھے۔ اُردو میں ایک دوسری کہاوت ہے جو اِسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے"جہاں دیکھا توا برات وہیں گزاری ساری رات" یعنی جہاں اپنا کام بنتا دیکھا وہیں کے ہو رہے اور انہی کی سی بات کرنی شروع کر دی۔