اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
"چشم نمائی کرنا"۔ طنزیہ انداز سے کوئی فِقرہ کہنا اور آنکھوں کا اشارہ کرنا چشم نمائی کہلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ترکیبی محاورہ انگشت نمائی سے چشم پوشی تہذیبی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے جب ہم دوسروں کی طرف سے کوئی برائی دیکھتے ہیں اور اُس پر کوئی اختلاف پیدا کرنا بھی نہیں چاہتے تو اُس کو نظر انداز کرتے ہیں اور اُس کو چشم پوشی اختیار کرنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں یہ نہایت اہم معاشرتی رو یہ ہے جو وقتاً فوقتاً اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ اختلافات کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اور اِس اَمر کی شعوری کوشش کی جائے۔ تاکہ تعلقات میں کوئی بدمزگی یا بد نمائی پیدا نہ ہو۔چمک چاندنی چاندنی کے ساتھ روشنی اور نور کا تصور وابستہ ہے چمک دمک کا نہیں ایسی عورت جو بہت چمک دمک سے رہتی ہے اور غیر ضروری طور پر سنگار پٹار کرتی ہے وہ معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اُس کو ایک طرح پر فاحشہ عورت تصور کرتے ہیں ۔ اس نسبت سے یہ محاورہ ہماری معاشرتی فِکر اور اندازِ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔چندے آفتاب، چندے ماہتاب، چودہویں رات کا چاند جو آدمی دوسروں کی نظر بہت قبول صورت اور پُر کشش ہوتا ہے اُس کو بطورِ تعریف کہتے ہیں کہ وہ چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ وہ چاند سورج کی طرح دل آویز ہے۔ اور نگاہوں کو فرحت بخشنے والا ہے۔ چاہے اُنہیں کسی وقت بھی دیکھا جائے رات کو دن کو صبح کو شام کو وہ ہر وقت اور ہر حالت میں خوش منظر ہیں ، خوبصورت ہیں ۔ اس سے معاشرے کی خوش ذوقی اور زبان کی خوبصورتی کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ہمارے یہاں مبالغہ آرائی کو حُسن بیان سمجھا جاتا ہے اور اِسی سے ہماری شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کی مقصدیت اور Approachسامنے آتی ہے۔ چودھویں رات کا چاند ہونا اُسی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔چور کی داڑھی میں تنکا۔ چور محل، چوری اور سینا زوری یا چوری اور سینہز وری، چوری چوری، چوری