اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
سونگھنا کہتے ہیں جب کوئی موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو سانپ نکل جانا کہتے ہیں شاہ نصیر کا استادانہ شعر ہے۔ خیالِ زلفِ بُتاں میں نصیر پیٹا کرگیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر لکیر پیٹنا یوں بھی وقت گزر جانے پر کسی کام کو کرنا ہے جو بے سُود ہوتا ہے اور اُس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہوتا سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے ایک بہت اہم بات ہے کہ دشمن کو آپ نقصان پہنچائے مگر خود نقصان میں نہ پڑیں اگر خود ہی نقصان میں پڑ گئے اور سانپ مارنے میں لاٹھی ٹوٹ گئی تو گویا خود ہی خطرے میں پڑ گئے اور نقصان اٹھا گئے۔ سانپ خاص طور پر کالا سانپ کاٹتا نہیں ہے صرف پھَن مار کر رہ جاتا ہے جہاں اُس کے سامنے کوئی چیز آئی اور اُس نے پھَن مارا جب کہ کاٹنے کے لئے پلٹنا ضروری ہے سانپ کے دانت سیدھے نہیں ہوتے وہ پلٹ کر ڈنک مارتا ہے اگر پلٹ نہیں سکتا تو ڈنک بھی نہیں مار سکتا اور جب وہ پھَن پھیلائے ہوتا ہے تو پلٹ نہیں سکتا اسی لئے کاٹ نہیں سکتا اور یہیں سے یہ محاورہ پیدا ہوا کہ وہ سانپ کی طرح پھَن مارتا ہے۔سانس نہ نکالنا سانس لینا زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سانس بھی احتیاط سے لیتا ہے بلکہ نہیں لیتا میر کا شعر ہے۔ اس سلسلہ کے بہترین اشعار میں سے ہے۔ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کامآفاق کی اِس کار گہہ شیشہ گری کا سانس روکنا صوفیوں کا عمل بھی ہے جس کو وہ دمِ سادھنا بھی کہتے ہیں سانس نہ لے یہ بڑی دھمکی ہوتی ہے۔ جس کے لئے غالب نے شعر کہا تھا۔ دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھاعِشق نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا