اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہوتی ہیں ۔ سماجی جھگڑوں میں اس طرح سے فیصلے زیادہ بہتر اور بے کار ہوتے ہیں جس میں دونوں طرف کا بھلا ہوا محاورے کے اعتبار سے دونوں گھر میں جائیں یہ نہیں کہ دونوں گھر اُجڑ جائیں ۔ دونوں وقت ملنا شام کے وقت کے لئے کہا جاتا ہے اُردو کا مشہور مصرعہ ہے۔ چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں مگر یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے اور سماجی فکر پربھی اثرانداز ہوا ہے کہ جب دن رات مل رہے ہوں تو کوئی دوسرے درجہ کی بات نہ کہنی چاہئے یا کرنی چاہئے یہ وقت احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دن گزر جا تا ہے شام ہو جاتی ہے تو آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس زیادہ شدت سے ہوتا ہے جس کی طرف میر کا یہ شعر اشارہ کرتا ہے۔ صبح پیری شام ہونے آئی میرتو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا اردو کا یہ مشہور شعر بھی یاد آ رہا ہے۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہےعُمر یونہی تمام ہوتی ہے جب آدمی کسی بات پر خوشی کا اظہار کرتا اور بے طرح کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کا دل دو دو ہاتھ اُچھل رہا ہے یہاں ہاتھ پیمانہ ہے یعنی بہت اُچھل رہا ہے ویسے بلیّوں اُچھلنا بھی کہتے ہیں جو ایک نعرہ آمیز صورت ہے مگر مبالغہ ہماری سوچ اور ذہنی Approachکا حصّہ ہے عام گفتگو میں اور محاورات میں بھی جہاں مبالغہ Preserveہو جاتا ہے۔دھبا، دھبا لگنا، دھبا آنا دھبّا ہماری سماجی لغت کا نہایت اہم لفظ قرار دیا جا سکتا ہے یہ لفظ بعض مواقع پر داغ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور داغ دھبا کہلاتا ہے۔ اسی سے دھبے کی سماجی نوعیت اور اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔ کہ دھبّا کسی چیز پر آتا ہے، لگتا ہے۔ یا لگایا جاتا ہے۔ تو وہ داغ کا حکم رکھتا ہے۔ اور عام طور پر جب دھبّا لگتا یا دھبا آنا