اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
فقیر کا لٹکا ایسے کسی شوق کو کہتے ہیں جو عام طور پر اُن فقیروں میں آ جاتا ہے جو دھُونی رمائے پیتے ہیں اور اِس طرح نشہ کرتے ہیں ۔فلک سیر ہونا، فلک بوس ہونا آسمان پر چڑھنا، آسمان کی سیر کرنا، آسمانوں کو چھونا دراصل آسمان پر ہونا یہی سب محاورے فلک سے متعلق بھی ہیں مثلاً فلک بود میں پہاڑ یا عمارتیں فلک ایک کردار کے طور پر بھی اُردو شاعری میں آتا ہے آسمان کو بُرا کہا جا تا ہے دشمن قرار دیا جاتا ہے اسی طرح فلک کو بھی انسان کی عافیت کا دشمن کہا جاتا ہے۔فنا فی اللہ ہونا صوفیوں کی اصطلاح ہے اُردو میں ہی قریب قریب اسی معنی میں رائج ہے"فنا فی اللہ" یعنی اللہ کی مرضی اُس کی خواہش اور اُس کی محبت میں خودی کے تصور سے گزر جانا اور اُس مادّی دنیا اور اس کے علائق سے انکار کر دینا اور یہ کہنا کہ اللہ کے سوا یہاں کوئی موجود ہی نہیں ہے اور جب اس صورتِ حال کو پہنچ کرنا اس میں گم ہو کر آدمی حقیقت وجود کو تسلیم کرتا ہے تو وہ گویا اب بقایا اللہ کو جان رہا ہے یعنی اب میں اللہ کے تصوّر اور اُس کی حقیقتِ عالی کے افراد کے ساتھ جی رہا ہوں میرا اپنا کوئی وجود نہیں یہ محاورہ ایک طرح سے خانقاہی ماحول اور اہلِ خانقاہ کے فلسفیانہ رُوحانی تصورات کی ترجمانی ہے۔فوجداری قانون کی ایک اصطلاح ہے مقصد فوج رکھنا نہیں ہے جواس کے لفظی معنی ہیں بلکہ قانون کی نگاہ میں جُرم کرنا اور مجرمانہ کار روائیوں میں حصّہ لینا ہے مثلاً مار پیٹ قتل و غارت چوری ڈکیتی وغیرہ اس کو انگریزی میں Criminalکیس کہتے ہیں کہ فوجداری کیس بن گیا یا فوجداری کے سپرد کر دیا یا فوجداری میں چلا گیا اس کے مقابلہ میں جو کیس ہوتے ہیں اور مالیات سے متعلق ہوتے ہیں وہ دیوانی کے کیس کہلاتے ہیں اور کس کی نوعیت کے پیش نظر اُسے دیوانی یا فوجداری میں منتقل کیا جاتا رہے۔