اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
چراغ خوشی کی علامت ہے اس لئے کہ وہ اندھیروں کو دور کرتا ہے۔ اور روشنیوں کو پیدا کرتا ہے۔ یہ بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے بیٹے کو اندھیرے گھرکا چراغ کہتے ہیں ۔ دعاء دی جاتی ہے۔ چراغ روشن مراد حاصل اور بے چراغ ہو جانا اس کے مقابلہ میں محروم ہو جانا، بے حد نقصان کی حالت میں ہونا ویران ہو جانا، گھرکے گھر بے چراغ ہیں شہر کا شہر بے چراغ ہے۔ اردو کا ایک شعر ہے۔ روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں داغ ایکاُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایکبیس بِسولے ہمارے معاشرے میں غیر شہری یا دیہاتی طبقہ بیس تک ہی گنتی جانتا تھا اور دو بیسی یعنی چالیس تین بیسی یعنی ساٹھ اسی نسبت سے وہ وہ کھیت کو بھی بسوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسی لئے بیس بِسوے کہتا تھا اور اُس سے مُراد اس کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ یہ معاشرے کے ایک خاص دور کا پیمانہ ہے۔ اور اُس معاشرے کے اپنے ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ جو کھیت کیار سے جُڑا ہوتا تھا۔بیل منڈھے ہونا یا چڑھنا، بیل پڑنا، بیل بدھنا بیل منڈھے چڑھنا، بیل کے سہارا لینے کے عمل کو کہتے ہیں اس لئے کہ بیل تیزی سے بڑھتی ہے مگر سہارا چاہتی ہے اگر سہارا نہیں ملتا تو وہ گِر پڑتی ہے اور برباد ہو جاتی ہے کسی منصوبے یا تدبیر کے کامیاب ہونے کو بڑی بات اور تقدیر کی خوبی خیال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی کام ہو جاتا ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ بس تقدیر کی خوبی ہے کہ بیل منڈھے چڑھ گئی ہمارے ہاں مدد کرنے والے تو ہوتے نہیں غلط سلط مشورہ دینے والے ملتے ہیں رکاوٹوں سے بچ نکلنا یا ان پر قابو پانا بڑی بات ہوتی ہے۔ تبھی گھریلو ماحول میں اسے بیل منڈھنا کہتے ہیں ۔ جو چیزیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں انہیں بیل بدھنا کہتے ہیں یعنی وہ بیل کی طرح پروان چڑھتی ہے یہ لڑکیوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ تو بیل کی طرح بڑھتی ہیں ۔بے نمک ہونا