اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ردیف "غ" غار ت ہونا، غارت کرنا ہمارے ہاں وسطی عہد میں راہ زنی اور غارت گری بھی مختلف علاقوں اور گروہوں نے بطورِ پیشہ اختیار کر لی اسی لئے ہمارے ہاں جرائم پیشہ کا لفظ آتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ وہ ذاتیں اور قبائلی گروہ ہوتے ہیں جو طرح طرح کے جرائم میں اُلجھے ہوئے نظر آتے ہیں اُن کے غول کے غول کبھی غارت گری کرتے ہوئے آتے تھے شہروں اور بستیوں پر ٹوٹ پڑتے تھے یہاں تک کہ رات کو پچاس وپچاس کوس تک کسی بستی میں چراغ نہیں جلتا تھا کہ لوٹ مار کرنے والے نہ آ جائیں اِس محاورے میں اسی صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے یہ لفظ دراصل غارت گر ہے جیسے مغربی یوپی کے لوگ غارت غور کہتے ہیں ۔ زکا حرف ل میں بدل جاتا ہے اس اعتبار سے یہ غارت غول ہو گیا۔ اور محاورہ بن گیا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بعض محاورے اس وقت کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہیں اور تاریخی سچائیوں کو اپنے اندر سمیٹے رہتے ہیں ۔غازی مرد "غزوہ" اُس جنگ کو کہتے ہیں جس میں حضورؐ نے شرکت فرمائی ہوئی تھی جیسے غزوۂ بدر، غزوۂ خندق اور غزوۂ احد رفتہ رفتہ یہ تصور ایسی جنگوں کا ترجمان بن گیا جو مذہبی مقاصد کے لئے ہوتی ہیں یا ظاہر کی جاتی ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے غازی کہلاتے ہیں اسی لئے غازی کا لفظ مسلمانوں میں بہت بہادر اور مذہبی جنگ میں حصّہ لینے والے کے لئے آتا ہے اور اپنے نام میں بھی احترام کے طور پر اس کو شامل کیا جاتا ہے یا دوسرے شامل کرتے ہیں جیسے غازی مصطفی کمال پاشا یا غازی امام اللہ خان وغیرہ غازی مرد کہنا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں بہادر آدمی مذہب کے لئے لڑنے والا انسان اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلم کلچر رکھنے والا خاص محاورہ ہے۔غائب غُلّہ کر دینا، غتر ابود کرنا