اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
داغ ایک طرح کا دھبّہ ہوتا ہے جو کسی بھی چیز پر خاص طور سے اچھے کپڑے اور کاغذ پر لگ جائے تو بہت بُرا لگتا ہے قدیم زمانہ میں جو آدمی کسی کا غلام ہوتا تھا خاص طرح سے نشان سے اُس کو داغا جاتا ہے اور وہ داغی غلام کہلاتا تھا۔ یعنی وہ آئندہ منہ دکھلانے کے لائق نہ رہتا تھا۔ اس قابل کر دیا جاتا تھا۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر خاندانی عزت کو اگر کوئی بات کوئی کام یا کوئی روش خراب کرتی یا مٹاتی تھی تو اُسے بھی کام لگنا یا داغ لگنا کہتے تھے۔ داغ دہلوی کا شعر ہے۔ میں اگر چاہوں تو گویا رب ابھی توبہ کر لوں داغ لگ جائے گا لیکن تیری غفاری میں داغ اٹھانا، صدمہ سے گزرنا ہے۔ داغ دیکھنا اور داغ کھانا بھی اسی معنی میں آتا ہے کسی شاعر کا شعر ہے۔ داغ دیکھے ہیں " داغ کھائے ہیں دل نے صدمے بہت اُٹھائے ہیں داغ کے معنی جلنے یا جل اٹھنے کے بھی ہیں جواس شعر کی طرف اشارہ ہے۔ دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سےاس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے "داغ بیل ڈالنا" ایک الگ صورت ہے جس کے معنی ہیں شروعات کرنا کسی کام کا ابتدائی منصوبہ تیار کرنا اور اُس پر عمل کرنا اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کام کی داغ بیل فلاں شخص نے ڈالی تھی۔ یعنی سلسلہ قائم کیا تھا۔دال روٹی سے خوش ہونا، دال روٹی صبر و شُکر سے کھانا دال ہمارے یہاں غریب آدمی کی خوراک کا ایک ضروری حصہ ہوتا تھا کباب، قلیہ، قورمہ، مُتنجن وغیرہ اعلیٰ درجہ کے سالن غریب آدمی کو کہاں میسر آتے تھے۔