اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
طعام کرنا دعوت کرنا کہلاتا ہے۔ جس دعوت میں بہت سے تکلف کے سامان ہوتے ہیں وہ پُرتکلف دعوت کہلاتی ہے۔ اور جس میں بہت سادہ کھانا ہوتا ہے وہ محاورتاً دعوتِ شیراز کہلاتی ہے۔ یعنی غریبی کی حالت میں کی جانے والی دعوت۔دل اُٹھنا، دل اُچاٹ ہونا، دل آنا، دل بجھنا، دل بُرا کرنا، دل بڑھانا، دل بھاری کرنا، دل دھڑکنا، دل بھر آنا، دل بیٹھ جانا، دل پانا، دل دھڑکنا، دل پر چوٹ لگنا، دل پر نقش ہونا، دل پر ہاتھ رکھنا، دل دہی کرنا، دل پکنا، دل پھٹنا، دل پھیکا ہونا، دل توڑنا، دل ٹوٹنا، دل ٹھکانے لگانا، دل جلانا، دل جلنا، دل جمنا، دل چیر کر دیکھنا، دل خوش کرنا، دل سے دل ملنا، دل سے گرنا، دل برداشتہ ہونا، دل سے دھُواں اٹھنا، دل کا بخار نکالنا، دل کا خریدار، دل کی بھڑاس نکالنا، وغیرہ وغیرہ دل اعضائے رئیسہ میں سے ہے۔ جذباتِ انسانی کا دل سے گہرا رشتہ ہے اور بہت سے محاورے دل ہی احساسات، جذبات اور حسیات سے وابستہ ہیں اور اُس کی معنی داریوں اور معنی نگاریوں کو پیش کرتے ہیں سماج یا انسانی معاشرہ اپنی سوچ کے جو مختلف دائرے رکھتا ہے اُن کی تصویر کشی یا عکاسی میں دل ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور ایک علامتی لفظ ہے جو فکر و فن اور شعر و شعور کی دنیا میں اپنا ایک اہم معاشرتی تہذیبی اور نفسیاتی کردار ادا کرتا ہے یہاں اُردو کے دو تین شعر پیش کئے جا رہے ہیں اُن سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ دل ہمارے وجود کا کتنا اہم حصّہ اور ہماری معاشرتی زندگی کا کتنا غیر معمولی سطح پر علامتی کردار ہے۔ دل گیا رونقِ حیات گئیغم گیا ساری کائنات گئی