اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اڑتی سی ایک خبر ہے زبانی طُیور کی غالب کا یہ مصرعہ اُردُو کے اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔شگوفہ چھوڑنا، شگوفہ کھِلنا شگوفہ" کلی" کو کہتے ہیں " کلی" کی پھول کے مقابلہ میں الگ اپنی پرکشش صورت اور ایک دل آویز سیرت ہوتی ہے جس کی اپنی خوبیوں کو اہلِ فن اور اصحاب فکر کی نگاہوں نے سراہا ہے۔ شاعروں نے طرح طرح سے اس کی خاموشی دل کشی اور پُر اسراریت کو اپنے شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہے سنسکرت اور پراکرتوں میں اس کا ذکر کنول کے ادھ کھلے یا بنِ کھِلے پھولوں کی تصویر کشی کے ساتھ آیا ہے۔ فارسی میں خاص طور پر گلاب کی کلی کے ساتھ اردو میں گلاب کے علاوہ چمبیلی کے مختلف رنگ رکھنے والے پھلوں کی کلیوں اور اُن کے چٹکنے کے ساتھ اس کے حسین عکس پیش کئے گئے ہیں یہ بھی ہماری تہذیب کا ایک علامتی پہلو ہے۔ اُردو میں شگوفہ کے ساتھ ایک دلچسپ محاورہ بھی ہے یعنی شگوفہ چھوڑنا یعنی ایسی دلچسپ بات کہنا کہ جو محفل کو پر مسرت بنا دے اور اس میں کوئی ایسا پہلو بھی ہو جو دلچسپ جھوٹ کا درجہ رکھتا ہو۔ اِس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی میں محفل نشینی کے انداز و ادا کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور گفتگو کے اس معاشرتی اسلوب کو بھی جس میں شگوفہ چھوڑنا آتا ہے ہم سب دلچسپ گفتگو نہیں کر پاتے لیکن دلچسپ گفتگو سے لطف لیتے ہیں جو ہمارے تہذیبی رویوں میں سے ہے۔شہد سا میٹھا، شہد لگا کر چاٹو، شہد لگا کے الگ ہو جانا شہد ہماری مشرقی تہذیب میں ایک عجیب و غریب شے ہے کہ وہ پھولوں کا اپنا ایک ایسا جز ہے جس کو بے حد قیمتی کہا جا سکتا ہے یہ دوا ہے بلکہ ایک سطح پر امرِت ہے یہ زہر کا تریاق ہے اور اصلی شہد میں جس شے کو بھی رکھا جائے