اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اگر گھنی آبادی ہو گئی، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔ اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔ میر انیس کا مصرعہ ہے: صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہا ہے اور صحرا کو تصورِ عشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل کیا گیا ہے۔ فراق کا مصرعہ ہے: صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتاآدمیت پکڑنا انسان آدم زاد ہے اور اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں ۔ انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے