اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جب صوفیوں کا ذکر آتا ہے تو اُن کی"ہُو حق"کا ذکر بھی آتا ہے۔ "ہُوحق" کے معنی ہوتے ہیں وہی حق ہے اور اُس کے ما سِوا کچھ نہیں یہ اُس سے مراد ہوتی ہے۔ جیسا کہ اِس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اُردُو محاورات مختلف طبقوں کے اپنے خیالات معاملات اور معمولات کو بھی پیش کرتے ہیں یہ محاورہ اُس کی ایک نمایاں مثال ہے کیونکہ یہ صوفیوں کا محاورہ ہے اسی لئے لفظ بھی انہی کے ہیں اور حال و خیال بھی انہی کا ہے۔ہوش اڑنا، ہوش اڑانا، ہوش پکڑنا، ہوش میں آؤ ہوش مندی زندگی کا ایک بہت ہی ضروری مرحلہ ہے ہوش و حواس اگر قائم نہ رہے تو آدمی اپنے لئے یا دوسروں کے لئے کچھ کر ہی نہیں سکتا اسی لئے ہمارے یہاں ہوش و حواس کے دُرست رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ میاں ہوش میں رہو یا ہوش میں آؤ یا"ہوش کے ناخن لو"یعنی ہوش مندی اختیار کرو یہ بھی ایک محاورہ ہے اور بہت اہم محاورہ ہے ہوش کی دارو، دوا تو لقمان کے پاس بھی نہیں تھی یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ذرا سی دشواری پیش آئی تھی اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ ہوش ٹھکانے آ لگے۔ "ہوش اڑنا، ہوش کھو دینے کو کہتے ہیں یہ خبر سن کر تو میرے ہوش اڑ گئے" یا میرے ہوش اڑا دینے کے لئے تو یہ صورتِ حال کافی تھی۔ تھوڑا سا اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا تو ہوش حواس کو سنبھالنے کا موقع ملا۔ اور اب جان میں جان آئی۔ہول جول دہلی کا خاص محاورہ ہے اور اِس سے باہر کہیں سُنا بھی نہیں گیا چرنجی لال نے اُسے اپنے ہاں بھی جگہ دی ہے"ہول" خوف کے معنی میں آتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ سن کر مجھے تو ہول آگیا لیکن"ہول جول" کے معنی اضطراب و پریشانی کے ہیں جس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نساء و عورت کا محاورہ ہے۔ محاورات ایک علاقہ سے نکل کر دوسرے علاقہ میں بھی پہنچتے اور پھیلتے ہیں اور مختلف طبقوں کے مابین اُن کا کبھی کبھی تھوڑے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ رواج ہوتا ہے لیکن ایسے محاورے بھی ہیں جو کچھ خاص تہذیبی اور طبقاتی دائروں سے وابستہ ہیں میل جول میں " جول" کا لفظ آتا ہے ہم جولی میں بھی لیکن"