اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
سے ابد تک کے لئے ہے قرآن نے اپنے احکامات کے لئے کہا ہے کہ وہ لکھ دیئے گئے اس کا تعلق بھی قلم سے ہے۔ "بھوج پتر" مٹی کی تختیاں یا لکڑی کی تختیاں بھی تحریر کے لئے کام آتی رہیں کاغذ کی ایجاد سے پہلے انہی تختیوں اور"بھوج پتروں " پہ لکھا جاتا تھا جن کو آج بھی میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے تحریر قلم کے ہی ذریعہ ممکن ہے اور تصویر بھی قلم بیشک الگ الگ ہوتے ہیں ۔ ہمارے یہاں قلم کے بہت سے محاوراتی الفاظ اور کلمات ہیں جیسے قلم اٹھانے کی ضرورت قلم برداشتہ لکھنا قلم چلانا قلم توڑ دینا یا قلم کی زبان میں کہنا اس سے ہم قلم کی تہذیبی تاریخ کو بھی جان سکتے ہیں ۔ اور پڑھنے لکھنے کے معاملہ میں قلم کی اہمیت کو بھی اور تحریر کی خوبی اور خوبصورتی کا ذکر بھی قلم کے رشتہ سے کیا جاتا ہے جیسے خوش قلم مرصع رقم جس کے معنی ہوتے ہیں خوش قطعی اور خوبصورت تحریر کو کہتے ہیں ۔قل ہو اللہ پڑھنا، قل ہونا "قل"قرآن پاک کا لفظ ہے اور"قل ہونا" یا قل ہو اللہ پڑھا جانا اُردو کے محاورات میں سے ہے۔ قل ہونا دراصل قل پڑھا جانا ہی اور قل پڑھے جانے کے معنی ہیں فاتحہ کی دعائے خیر۔ ذوق نے اپنے ایک مصرعہ میں کہا ہے۔ لا سا قیا پیالہ تے توبہ کا قُل ہوا یعنی توبہ ختم ہوئی اور ہم نے توبہ ہی کا ارادہ ترک کر دیا اب تو پینا پلانا ہی رہ گیا آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا بھوگ لگنا ہے چونکہ بھوک کے وقت پیٹ میں آنتیں ایک خاص طرح کی حرکت کرتی ہیں ان کی آواز کو""قراقر"کہتے ہیں اسی کو قل ہوا اللہ پڑھنا کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلم معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نے فارسی و عربی سے بھی اپنے خاص ماحول کے مطابق محاورات اخذ کئے ہیں ۔