اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
یوں توں کرنا، یوں ہی، یوں ہی سہی بُرا سلوک کرنا، تلخ کلامی یا ترش روئی سے پیش آنا اسی لئے بے تکلف لہجہ میں کہتے ہیں کہ اس نے تو ہماری"یوں توں " کر دی یوں ہی یا یوں ہی سہی یہ ایک عام فقرہ ہے اور جب دوسرے کی بات کو ہم کاٹنا نہیں چاہتے تو کہتے ہیں چلو یوں ہی سہی اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔ تیری مرضی ہے اگریوں ہی تولے یوں ہی سہی بہادر شاہ ظفر کا بھی شعر ہے۔ جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہییوں خوشی ہے آپ کی تو وہاں یوں ہی سہییہاں کا یہیں یعنی دنیا کا دنیا ہی میں رہ جائے گا جو کچھ ہونا ہے وہ یہیں ہو گا اسی لئے ایسے فقرہ استعمال کئے جاتے ہیں کہ یہاں کا جوہو نا ہے وہ یہیں کسی شاعر کا شعر ہے۔ چاہو جتنا گھوٹ لو لوگوں کا تم صاحب گُلاہاتھ خالی جاؤ گے یاں کا یہیں رہ جائے گا یوں تو رشتہ کبھی نہیں توڑاجو یہاں کا ہے وہ یہیں چھوڑا اس لیے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان کا ہمارے محاورے سے کیا رشتہ ہے اور اِن دونوں کا ہماری زندگی و ذہن سے کیا تعلق ہے۔ ہم اپنی بات سیدھے سادھے انداز میں بھی کرتے ہیں لیکن اکثر جذبہ کے اظہار اور خیال کی تصویر کشی کے لئے اُس میں لسانی اور لفظی سطح پر اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کی غرض سے نئی نئی پہلوداریاں بھی پیدا کرتے ہیں یہاں کا یہیں رہ جانا عقیدہ کا اظہار بھی ہے اور عبرت دلانے کے لئے ایک اندازِ گفتگو بھی جس کے پس منظر میں ہمارے سماجی ضابطے عقیدہ تصورات سب آ جاتے ہیں ۔