اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
آنکھوں " بد دیا نتی کرتا ہے تو دوسرے کہتے ہیں کہ کیا مُردے کا مال سمجھ رکھا ہے۔مرزا پھویا جو بچہ اپنے ماں باپ یا بڑوں کے لاڈ پیار اور ناز برداری کی وجہ سے بہت نازک مزاج اور تحریر یا نازک مزاج ہو جاتے ہیں ان کو مرزا پھویا کہتے ہیں یعنی روئی کا بہت ہی چھوٹا سا اور نازک سا پھویا ایسا پھویا جسے عطر سے بسایا جاتا ہے۔ سماجی طور پر ہمارے معاشرے میں غیر ضروری نزاکت نازک مزاجی بُری بات سمجھی جاتی ہے اور اسی پر ایک طنز ہے اور اس دور کی یادگار ہے جب رئیسوں کے بچہ ناز نخرے کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔مُرمُروں کا تھیلا مُرمُرے کھیلوں کی طرح چاول سے تیا رکیا ہوا ایک آئیٹم ہوتا ہے بہت ہلکا قریب قریب بے وزن اب اگرمُرمُرے ایک تھیلے میں بھر لئے جائیں تو تھیلا بہت بڑا ہوتا ہے مگر اِس میں وزن کچھ بھی نہیں ہوتا وہ آدمی جو بظاہر موٹا تازہ اور بھاری بھرکم ہوتا ہے اُسے مُرمُروں کا تھیلا کہتے ہیں ۔مرنے کی فرصت نہیں ہوتی موت کے لئے فرصت و فراغت کی کوئی شرط نہیں ہوتی مگر آدمی اپنے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتا ہے اور بہانہ بھی ایسا جو اُسی کے لئے قابلِ قبول ہوتا ہے کسی دوسرے کے لئے نہیں ایسے ہی بہانوں میں سے یہ بہانہ بھی ہے کہ مرنے کی بھی فرصت نہیں ظاہر یہ کرنا ہوتا ہے کہ میں بہت ضروری کسی کام میں لگا ہوا ہوں اور اس کو پورا کر لینا چاہتا ہوں اس وقت تو اگر فرشتۂ موت آ جائے تو اس سے بھی معذرت کر لوں گا کہ فی الوقت مجھے فرصت نہیں ہے اِس وقت میں جینا چاہتا ہوں اپنا کام سمٹانا چاہتا ہوں مجھے مرنے کی بھی فرصت نہیں ۔