اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
بعد میں خدا کا نام ہے اور کچھ نہیں ۔معلوم ہوا کہ فکر و خیال اور سعی و عمل کی وہ حد جسے ہم نقطہ آخر کہہ سکتے ہیں وہ مقام آ چُکا ہے اور اُس کے بعد خدا کا نام ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے کلمہ کے بات پھر وہیں آئی کہ صورت جو بھی ہو انتہا کو پہنچ کر ہم خدا کے نام کو سامنے رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہی اوّل ہے وہی آخر ہے نہ اس سے پہلے کچھ تھا اور نہ اس کے بعد کچھ ہے۔آگے سے ہوتی آئی ہے ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر روایت پرست ہے اور انسان نے اپنی راہ ارتقاء کے مختلف مرحلوں میں سوچا ہے، سمجھا ہے، نئے فیصلے کئے ہیں ، مگر معاشرہ بنیادی طور سے روایت پسند رہا ہے یہ کہنا کہ آگے سے ہوتی آئی ہے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم جو کچھ سوچ رہے ہیں کر رہے ہیں وہ پہلے سے چلی آتی ہوئی ایک روایت ہے۔ ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں یعنی اپنی سوچ کا عمل یہاں بھی موجود نہیں ہے صدیوں کا سفر آنکھ بند کر کے روایت کی لکیر پر ہوتا رہا ہے آخر اچھوں کو کیوں برا کہا جاتا رہا ہے یہ کتنا بڑا سوالیہ نشان ہے مگر ہر آدمی نے روایت کا سہار لیا خود سوچا نہیں اور یہی انسانی معاشرے کی بہت بڑی کمزوری نارسائی اور ناکامی ہے کہ اُس نے ایک بار کسی بات کو مان کر پھر اُس پر کبھی نہیں سوچا۔ اور Tradition Boundروایت پرستی پر ہمیشہ فخر کیا۔آگے کا اُٹھا کر کھانے والا، یا آگے کا اُٹھا کے کھانا آگے کا اُٹھاکھا کرنا یہی محاورہ دوسرے الفاظ میں بھی ملتا ہے"اوپر کا پڑا کھانا" اور ہمارے معاشرے کی شدید کمزوریوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی بغیر محنت کے یا بغیر حق کے کھانا جو مل گیا جسے مل گیا جہاں سے مل گیا اُس سے پیٹ کی آگ بجھا لی یا اپنی کوئی بھی معاشرتی ضرورت پوری کرنا ہے معاشرے کی