اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
قید لگانا، قید میں رکھنا، قید میں عائد کرنا "قید" ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حوالہ رہا ہے اور آج بھی ہے ہم دوسروں کو کسی بھی وجہ سے اپنا پابند اور محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں مثلاً غلام بنانا، باندی بنانا، نوکر کے آگے چاکر رکھنا ایک ایک بات سے انسان کی امتیاز پسندی ظاہر ہوتی ہے صدیوں تک محکوموں کے بارے میں جو قاعدہ قانون بناتے رہے وہ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ آدمی مجرموں کو بھی قید میں ڈالتا ہے قید میں رکھتا ہے اور سزا کے طور پر اُن سے بدسلوکی کرتا ہے یہ بات اگر ایک حد تک جائز بھی ہو سکتی ہے تو اس کی اپنی کچھ اخلاقی حدیں ضرور ہونی چاہئیں لیکن وہ حدیں باقی نہیں رہیں اور اس طرح کے تصورات عام ہو گئے کہ اس نے قید میں ڈال رکھا ہے قیدی بنا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے سماج کے تاریخی اور تہذیبی رویوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور قاعدہ قانون کی روش پربھی روشنی پڑتی ہے۔ردیف "ک" کاٹ چھانٹ کرنا کاٹنا کم کرنا درست کرنا، تبدیلی کرنا جیسے معنی میں آتا ہے لیکن سماجی طور پر اُس کے مفہوم میں خاص طرح کی کتر بیونت شامل رہتی یہ کہ آدمی بات کہتے وقت دانستہ طور پر اپنی طرف سے کوئی بات بڑھا دی کوئی کم کر دی کسی کا رخ بدل دیا خود لب و لہجہ میں تبدیلی آنے سے بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو کاٹ چھانٹ کے عمل میں ذہنی جذباتی اور سماجی رو یہ شامل ہو جاتے ہیں ۔