اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کنواں کھودنا، کنوؤں میں بانس ڈالنا، کنوئیں میں جھانکنا، کنوؤں میں جھکانا کنواں کھودنا پانی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے لیکن شیر کو یا ہاتھی کو زندہ پکڑنے یا گرفتار کرنے کے لئے بھی کنواں کھودا جاتا ہے اور اس پر گھانس پھونس ڈال دیا جاتا ہے اور جب شیر یا ہاتھی وہاں سے گزرتا ہے تو اس کنویں یا گڈھ میں جا گرتا ہے اور پھر اس کو پلے ہوئے شیروں یا ہاتھیوں کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔ کنوؤں میں بانس ڈالنا، تلاش کرنے کو کہتے ہیں کہ تمہاری تلاش میں توہم نے کنویں میں بانس ڈلوا دیئے کنویں جھانکنا یا جھُکانا بھی تلاش کرنا ہے مگر اچھے معنی میں نہیں ہے اب کنویں باقی نہیں ہیں بیشتر کنویں بند ہو چکے ہیں دہلی میں لال کنواں ، ڈھولا کنواں اندرا کنواں اس کی مثالیں ہیں پتھر والا بھی کبھی کنواں ہی تھا کھاری باولی اور حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ سے متعلق باولی بھی بڑے کنویں ہیں کھاری باولی اب نہیں ہے مگر بستی حضرت نظام کی باولی موجود ہے اور گزرے زمانے کی یاد دلاتی ہے۔کوٹھے والیاں کوٹھا ایک خاص معنی میں بالا خانہ کو کہتے ہیں اور بالا خانہ بھی اپنا ایک اصطلاحی مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی طوائف کی رہائش گاہ طوائف گانے والی عورت کو کہتے تھے۔ جس کو رقص کا فن بھی آتا تھا۔ گانے بجائے اور رقص کے ساتھ اپنے موسیقی کے فن کو پیش کرنے کا کام ڈومنیاں بھی کرتی تھیں ۔ مگر وہ عورتوں کی محفلوں میں گاتی بجاتی تھیں ۔ ویسے ڈومنی کا اصطلاحی لفظ طوائف کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا درگاہ قلی خان سر سالار جنگ اول نے عہد محمد شاہی میں جو دہلی کا سفر کیا تھا اس کی روداد مرقع دہلی نام کی کتاب میں ملتی ہے انہوں نے دہلی کی اس وقت کی طوائفوں کو ڈومنی کہا۔ طوائفیں بڑی مالدار اور ڈیرہ دار بھی ہوتی تھیں ۔ ڈیرہ دار طوائفیں وہ طوائفیں کہلاتی تھیں جن کے پاس نو عمر لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور ان کے لئے رقص و سرود کا کام بھی کرتی تھیں اُن کو نوچنا کہتے تھے انگریز جب ہندوستان میں آئے اور انہوں نے طوائفوں سے ذہنی رابطہ پیدا کیا تو وہ انہیں لال بی بی کہہ کے پکارتے تھے۔ طوائف کے کوٹھے پران کے درجہ کے مطابق اُمراء اور صاحب ثروت لوگ جاتے تھے۔ بادشاہوں کی بھی طوائفیں محبوب شخصیتیں ہوتی تھیں طوائف کے کوٹھے