اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
تحت بھی اور اس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی بُرائی چھُپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھتر چھایا میں لے آنا چاہتے ہیں مثلاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا اِس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس کی ناکامی میں اُس کی غلطی کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور دوسروں کی مکاریوں کو بھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں کا سہارا لیتے ہیں چونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہو گیا ہے اسی وجہ سے اِس بات کا رُخ بات بات میں مذہب کی طرف پھر جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رو یہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اللہ نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے یعنی آخری وقت ہے اور خُدا یاد آ رہا ہے۔ دمِ واپس اب سرِ راہ ہےعزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے اظہارِ تعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتا ہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت آ گئی۔ یا تم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تو اللہ اللہ کرو۔اللہ آمین سے بچہ پالنا، یا اللہ آمین کا بچہ ہونا جو بچے بہت لاڈلے ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ خاندان یا ماں باپ کی بہت تمنائیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری یہ محاورہ اُس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اور موا وغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرد اِس کو استعمال نہیں کرتے۔اللہ والا، خُدا رسیدہ، بہت نیک