اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
مضبوط ہو گی، اتنی ہی عمارت مضبوط ہو گی۔ ہمارے ہاں بنیاد کے ساتھ بہت لفظ آتے ہیں ۔ اور محاورے کے طور پر آتے ہیں ۔ جیسے، بے بنیاد بات ہے، اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ "بنیاد" کے ساتھ" جڑ" کا لفظ بھی آتا ہے اور"جڑ بنیاد" کہتے ہیں ۔ اُن دونوں لفظوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا- جڑ کا پہلے اور بنیاد کا بعد میں - ایسی لفظی ترکیب ہے جو روزمرّہ کے دائرے میں آتی ہے۔ ہم جڑ بنیاد ہی کہہ سکتے ہیں ، بنیاد جڑ نہیں ۔ جیسے، تین پانچ ہی کہتے ہیں ، پانچ تین نہیں کہتے اور اس سے تیا پانچہ کر دیا۔ جڑ کے ساتھ جڑ جمنا، جڑ جمانا، جڑ اکھڑنا، جڑوں کا کھوکھلا ہونا، جڑوں سے وابستہ رہنا- -غرض بہت سے محاورے ہیں جن کا تعلق درخت یا شجر سے اتنا نہیں ہے جتنا ہماری سماجی زندگی سے ہے۔ "اَرنڈ کی جڑ" کمزور ہوتی ہے؛ بالکل کھوکھلی۔ اسی لیے ارنڈ کی جڑ کے معنی ہیں ناپائدار ہونا۔ اپنی جڑ کی ناپائداری اس کے لیے کم قدری کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے"اَرنڈ باغاتی" دہلی میں محاورہ ہے جو میر اور سودا کے زمانے تک بولا جاتا تھا اور مطلب ہوتا تھا"بے تکی چیز"۔ اس کو" باغاتی" بھی کہا جاتا رہا ہے۔اَرواح بھٹکنا دہلی والے رُوح کو اَرواح کہتے ہیں ، یعنی رُوح کی جمع بولتے ہیں اور اس سے صرف رُوح مراد لیتے ہیں ۔ روح بھٹکنے کے معنی یہ بھی ہیں کہ انسان چلا جاتا ہے اور اس کی روح دنیا میں باقی رہ جاتی ہے اور اِدھر اُدھر اس کو یا اپنی کسی پسندیدہ چیز کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ قدیم زمانے سے یہ تصور موجود ہے۔ کہ رُوح اپنے بدن یا مادّی وجود کی طرف واپس آتی ہے۔ قدیم زمانے کی قبروں میں اس طرح کے نشانات رکھے جاتے تھے جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ فلاں شخص کی قبر ہے۔ اب تو یہ بات دنیاوی طور پر شناخت کے لیے ہوتی ہے اور کتبے لگائے جاتے ہیں ۔ قدیم زمانے میں یہ رُوح کی شناخت کے لیے ہوتا تھا کہ وہ پہچان جائے۔ اب یہ گویا محاورہ بن گیا ہے کہ رُوح بھٹکتی پھرے گی۔ خاص طور پر محبت کرنے والے کی روح کے لیے ایسا سوچا جاتا ہے۔ میر نے اپنی مثنوی"دریائے عشق" اور"شعلۂ عشق" میں اسی کا ذکر کیا ہے۔ بعد کے شعراء کے ہاں بھی اس کا بیان ملتا ہے اور اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندگی ہی میں نہیں ، مرنے کے بعد بھی میرا شوق، میرا تعلقِ خاطر قائم رہے گا اور میری رُوح تیرے یا اپنے محبوب کی فراق میں بھٹکتی رہے گی۔اَرے ترے کرنا (ابے تبے کرنا)