اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔ "کرشن اور رادھا" کے رشتے میں یہی خلوصِ خاطر اور دلی تعلق موجود تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔ اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور اپنی لگی سگی "رادھا" کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں ۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں ، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں ، مثلاً "اپنی صلیب آپ اُٹھانا۔" ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ "پھانسی چڑھنا" بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ "اپنی قبر آپ کھودنا" بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں ۔ "اپنے قول کا پکا ہونا" بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔اپنی کھال میں مست ہونا معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگوں میں خود پسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں "اپنی کھال میں مست ہو جانا۔" یعنی ایک آدمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے معاملات سے بے پروا اور بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں ۔ اپنی پروا بھی نہیں ۔ وہ تو بس اپنی کھال میں مست ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب قریب"آپا بسرانا"، "آپا تجنا"، "آپا تج دینا" محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔