اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
گھی کبھی میسر آتا تھا تو غریب آدمی کی زندگی میں یادگار موقع ہوتا تھا اسی لئے جب کوئی دل کو بہت خوش آنے والی بات ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ اس کو دیکھ کر اس کی بات سن کر میں نے گھی پی لیا۔ شکرانہ پر باریک شیر یا بورے کے اوپر گھی ڈالا جاتا تھا۔ بیاہ برات کے موقع پر مہمانوں کو تواضع کے طور سے زیادہ سے زیادہ گھی پیش کیا جاتا تھا اسی لئے جو بہت اچھا آدمی ہوتا تھا اس کو بھی گھی سے نسبت دی جاتی تھی اور پیار محبت کے طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ وہ تو گھی ہے یا گھی کا سا گھونٹ ہے۔ گھی پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں مثلاً سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا یا کھائیں گے تو گھی سے نہیں تو جائیں گے جی سے یا سارے مزے ایک گھی میں ہیں گھی دودھ سب سے اچھی غذا سمجھی جاتی تھی اور یہ کہتے تھے کہ وہ تو گھی دودھ پر پلا ہے۔گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا یہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ گزر گیا جو وقت ضائع ہوا وہ کسی قیمت پر واپس نہیں آ سکتا وقت ہم بہت استعمال کرتے ہیں جیسے اچھا وقت بُرا وقت مصیبت کا وقت خوشی کا وقت کوئی بھی وقت ہو اس کے اپنے معنی اور اپنی اہمیت ہوتی ہے میر حسن کا یہ مشہور شعر وقت کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔ سدا دور دورا دِکھا تا نہیں گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں