اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
طرف دیکھتا ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہو جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں ، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا آدمی اپنے ہوش و حواس اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں ۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں ، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہو جاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں ، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں "آٹا ماٹی ہونا" بھی کہتے ہیں ۔اٹھکھیلیاں کرنا آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں ۔ مثلاً، آٹھواساں ، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔ "آٹھوں گانٹھ کمینت" ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہو جاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی"آٹھ کھیل" جو باتوں سے متعلق ہوں ۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ"بارہ سولہ سنگھار" یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں ۔اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت