اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
سے دلچسپی کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ اشاعت کے لئے اردو اکادمی بھی شکر یہ اور مبارکباد کی مستحق ہے۔ سید ضمیر حسن دہلوی 12/مارچ 2006ءپیش حرف (مقدمہ) محاورہ عربی زبان کا لفظ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں "محور" شامل ہے جس کے معنی ہیں مرکزی نقطہ فکر و عمل۔ جس کے گرد دائرے بنائے جاتے ہیں ۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ زبان کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے یعنی وہ دائرہ جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے گرد پھیلی ہوئی بہت ساری حقیقتوں کو یہ کہیے کہ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ہمارے محاورات ہمارے مُشاہدوں اور طرح طرح کے تجربوں کو پیش کرتے ہیں اور انہیں کہیں عام معاشرتی انداز فلسفیانہ اور کہیں شاعرانہ انداز سے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں گاہ گاہ پیشہ وارانہ انداز بھی شامل رہتا ہے۔ اور طبقہ وارانہ بھی اس میں ہمارے قدیم الفاظ بھی محفوظ ہیں اور قدیم روز مرّہ بھی یہ عمومی زبان اور عام لب و لہجہ سے قریب ہوتا ہے اور ایک حد تک اِس میں تخیل اور تجربہ کا اور تجزیہ کا آمیزہ بھی پایا جاتا ہے۔ "زبان" کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کو دخل ہوتا ہے۔ ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے، اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے، اور وہیں سے اُس سوچ یا اُس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں ۔ اور پھر اُن میں سے کچھ فقرہ اور جملے محاورات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں ۔ اور ایک طرح سے محاورہ کی اِس حیثیت پر ہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب تک یہ تو ہوتا رہا کہ محاورہ کی صحتِ استعمال پر زور دیا گیا۔ اُس کی نوکِ پلک دُرست رکھی گئی۔ اور اِس طرح کی کتابیں بھی بعد کے زمانے میں تحریر ہوئیں کہ محاورے کے معنی یہ ہیں اور اِس کا استعمال یہ ہے۔ یہ کام تدریسی نقطہ نظر کی سطح پر ہوا۔ یا پھر زبان کے ایک بڑے حصّے کو محفوظ کرنے کی غرض سے اسے انجام دیا گیا۔ چرنجی لال کی لغت