اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
بولتے ہیں تو اُس سے مُراد داغ لگنا ہی لیا جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ دھبّا پڑ گیا خاندان کو دھبا لگ گیا یعنی خاندان بے عزت ہو گیا۔دھجی، دھجیاں اڑانا، دھجیاں اڑنا، دھجیاں لگنا، دھجیاں ہونا، دھجی دھجی ہونا یہ سب محاورے اپنی مختلف صورتوں میں بے حِس ہونے یا بے قدر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہنا کہ وہ کپڑا کہاں ہے ذرا سی دھجی ہے یا اُس کے کپڑے دَھجی دَھجی ہو گئے یا وہ دھجیاں لگائے پھرتا ہے۔ یا دھجیوں کو بھی وہ تہہ کر کے رکھتا ہے یعنی اسی طرح کے کپڑے کہیں ریزوں کی طرح تہہ کر کے رکھے جاتے ہیں اِن میں تو دھجیاں لگی ہوئی ہیں ۔ اِس سے ہم سماجی ردِ عمل اور معاشرتی سطح پر جو سوچ بنتی رہتی ہے اور ہمارے کمینٹ (Comments) سے گزرتی ہے۔ اس کا اظہار ہوتا ہے کپڑا ہماری سماجی زندگی کی ایک نہایت اہم جزء ہے اس کا پہننا اوڑھنا اور اچھا اور برا ہونا بھی قیمتی اور بے قیمت ہونا بھی دوسروں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ اس کا اظہار اس کہاوت سے بھی ہوتا ہے" کھائیے من بھاتا پہنے جگ بھاتا"یعنی دوسروں کی نظر بے اختیار لباس کی طرف اٹھتی ہے اور اسی کی حیثیت کے مطابق آدمی کی شخصیت شعور اور ذاتی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔دَھرم کرنا، دَھرم لگتی کہنا، دَھرم سے کہتا ہوں دَھرم ہندو اپنے مذہب کو کہتے ہیں اور اُس کو قانون قدرت اور دستورِ فطرت سمجھتے ہیں اسی لفظ کا تلفظ بدھزم میں دھمّا ہے۔ اور بودھ مذہب کی مذہبی کتاب کو"دھم پد" کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ دھرم گر و، مہاتما گوتم بدھ کے لفظ میں اب چاند گرہن کے موقع پر نیچ قوم کے جو لوگ خیر خیرات مانگنے آتے ہیں وہ دھرم گرو کہتے ہیں ۔ دھرم کی کہنا اس سے مراد ہے دیانت دار ی کے ساتھ ایمان کی بات کہنا۔ دھرم لگتی کہنا بھی ایمان داری کی بات ہے۔ دھرم مُورت ہے کسی بہت بڑے مہاتما یا سادھو سنتھ کو کہا جاتا ہے اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ محاورے کلچر، عقیدہ، خیال کئی دائروں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اِن میں ہندو مسلمان دراوڑ، آریہ اور ہند ایرانی کلچر کے اثرات کو موقع بہ موقع جگہ بہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دَھرم سے کہتا ہوں یعنی خدا کو حاضر و ناظر کر کے کہتا ہوں ۔ یا قسم کھاتا