اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
رام کی مذہبی اور تہذیبی شخصیت ہمارے معاشرے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اور ہندو معاشرے کی سائیکی میں داخل ہے۔ گاؤں کے اور آدمیوں کے نام" رام" کے نام پر رکھے جاتے ہیں "راون" رام کے مقابلہ میں ایک دوسرا کردار ہے جس کو بُرائیوں کا ایک علامتی کردار خیال کیا جاتا ہے" راون کی سیتا""راون کی نگری" یا راون کی لنکا اسی نسبت سے محاوروں میں داخل ہوتی ہے۔ "رام"کو یاد کرنا نیکیوں کے سر چشمے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جیسے"رام رام کرو" رام بھلی کرے گا رام نام کی لوٹ مُفت کا مال ہے بڑی چیز ہے تم جتنی بھی چاہو یہ دولت تمہاری بن سکتی ہے۔مصیبت کے وقت میں رام کی دہائی بھی دی جاتی ہے اور مصیبتوں بھری کہانی کو"رام کہانی" کہا جاتا ہے"رام کتھا" بھی رام کہانی ہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ دوسرا ہے رام کے نام پر آنے والے محاورے اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور محاوروں کے سرچشمہ میں کہاں کہاں میں کہاں کہاں ہیں اور کن سماجی مُحرکات کے ذریعہ محاوروں سے متعلق مفہوم و معنی کے سلسلہ پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ سب"رام کی مایا"ہے اسی معنیاتی سلسلہ کی طرف اشارہ کرنے والے محاورہ ہے۔رُستم یا افلاطون کا سالا بعض کردار عوام کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں ذہنوں پر چھا جاتے ہیں ۔ اُن میں ایک افلاطون کا کردار بھی ہے جو یونان کا تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے ایک فلسفی گزرا ہے جو"ارسطو" کا استاد تھا۔ اس کا فلسفہ ہمارے یہاں علمِ حکمت اور دینی مسائل میں بھی رہنمائی کرتا رہا ہے ہمارے عوام کے دلوں میں یہ فلسفیانہ مسائل تو کیا اترتے وہ افلاطون کو ایک بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لئے اُسے بطورِ برائی استعمال کرتے ہیں وہ افلاطون ہو رہا ہے خود کو افلاطون کا سالا سمجھتا ہے یا افلاطون بنا کر پھرتا ہے افلاطون کو اُن نفسیاتی رویوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری زبان ہمارے ذہن اور ہمارے زمانے کے عام لوگوں کے پاس یہی تصور ہے۔ ورنہ عام لوگ افلاطون کو کیا جانیں ۔ رُستم قدیم ایران کا ایک پہلوان تھا بہت بڑا بہادر جس کی حیثیت اب ایک اساطیری کردار کی سی ہو گئی ہے اور بہادری میں اس کانام بطورِ مثال آتا ہے ویسے ہمارے یہاں بڑا پہلو ان اور طاقتور سمجھتے ہیں اس کو" رستم زمان" خیال کرتے ہیں "گاماں "پہلوان کا خطاب"رستم" ہند تھا اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افلاطون کی