اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جس سے تعلق رکھنے والے لوگ باتیں زیادہ بناتے ہیں دیکھا جائے تو باتیں بنانا اور کام کرنا ہماری سوسائٹی کے نہایت اہم مسائل ہیں اور انہی سے متعلق یہ گفتگو ہے جو محاورے کی شکل میں یا بطور Comment کے سامنے آتی ہے۔جونک پتھروں میں نہیں لگی جونک لگنا خود ایک محاورہ ہے۔ جونک پانی کا ایک کیڑا ہوتا ہے جو کھال سے چمٹ جاتا ہے اور خون چوستا رہتا ہے اسی لئے محاورہ ہے کہ وہ تو جونک کی طرح لگ جاتے ہیں ۔ مگر ایسے لوگ تو جو نہایت سخت دل سخت طبیعت اور سخت مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح لگ کر بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اس لئے کہ پتھر میں جونک لگتی ہی نہیں جہاں خون ہو گا وہیں تو جونک چُوسے گی پتھر میں اُسے کیا ملے گا۔جی ہے تو جہان ہے (جان ہے تو جہان ہے) اِس محاورے کو جان ہے تو جہان ہے کی صورت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے یہ فرد کی اپنی اہمیت اور اس کی اپنی جائز فلاح و بہبود سے متعلق ایک سوچ ہے۔ اس کا استعمال دو موقعوں پر ہوتا ہے ایک کہ آدمی کی اگر صحت ہے وہ زندہ ہے اور بقول غالب۔ تنگ دستی اگر نہ ہو غالبتندرستی ہزار نعمت ہے یہی تندرستی جی ہے جہان ہے جہان ہے اور یہی ہزار نعمت دنیا جہان کی خوشیاں ہیں اسی طرح ہم یہ بھی سوچتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ہی نہ ہوں گے تو دنیا کا ہونا نہ ہونا ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا جی ہے گویا جہان ہے۔