اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
خانقاہوں کا اثر غیر معمولی ہے جو شمال و جنوب میں یکساں طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن جس زمانہ میں دکنی زبان میں قدیم اردو لٹریچر کے نمونے سامنے آ رہے تھے اس دور میں شمالی ہندوستان میں اُردو شاعری کی مثالیں نہیں ملتیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دہلی کے آس پاس جو زبانیں بولی جا رہی ہیں اُن میں شاعری اچھے خاصے پیمانہ پر ہو رہی ہے۔ ان زبانوں میں پنجابی اور راجستھانی زبان کے علاوہ برج اور اودھی شامل ہے ان زبانوں یا بولیوں کا شعری ادب مسلمان قوموں کا اپنا تخلیقی ادب بھی۔ اور بڑے پیمانے پر ہے۔ اِن کے مطالعہ سے ہم بہت کچھ لے سکتے ہیں اور نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کے وسیلے سے ایک طرح اور ایک سطح پر زبان آگے بڑھتی رہی ہے اور نئی نمود حاصل کر رہی ہے۔ محاورہ اُس دور زندگی کی بہرحال لسانی یادگار ہے اور ان کے ادبی لسانی اور تہذیبی اثرات محاورے میں بھی سمیٹے ہوئے ہیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Preserved صورت میں ہیں ان بولیوں سے تقابلی مطالعہ کا وسیلہ اختیار کر کے ہم اُردو محاورات کا مزید تہذیبی اور لسانی نقطہ نظر سے کام کر سکتے ہیں ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے اہلِ نظر اور اصحابِ خیر افراد اس طرف توجہ فرما ہوں جس سے اِس نوع کے مطالعہ کی اہمیت سامنے آئے اور اس کے مختلف گوشے جواب تک نظر داری کی روشنی سے محروم ہیں اُن کی طرف توجہ مبذول ہو۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والے اور سینئر ادیب اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ دے کر بات کو آگے بڑھائیں گے اور مطالعہ کی نئی صورتیں سامنے آئیں گی اور آتی رہیں گی۔مراجع و مصادر مخزالمحاورات۔ منشی چرنجی لال 1886ء ہمارا تہذیبی ورثہ۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی بیخود دہلوی۔ مرتبہ۔ ڈاکٹر کامل قریشی 1980ء دلّی میری بستی میرے لوگ۔ مرتب:عظیم اختر2000ء حرف و صدا۔ ہیرا لال فلک دہلوی 1928