اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
لوہے کی چھاتی اور پتھر کا جگر کر لینا بہت بڑی آزمائش سے گزرنا، چھاتی یا سینہ یہاں تک بطورِ تشبیہہ آیا ہے اُسے ہم استعاراتی انداز کہہ سکتے ہیں پتھر بھی سخت ہوتا ہے اور بے حس ہوتا ہے یہی حال لوہے کا ہے کہ وہ سخت بھی ہے۔ اور بھاری بھی جب کسی بہت بری بات کو برداشت کرنا ہوتا ہے اس کے لئے ظاہر ہے کہ ہر نیچر کا آدمی نہیں کر سکتا کوئی خاص ہی آدمی ہو گا جو بے حد ضبط اور حدسے زیادہ صبر رکھتا ہو وہی برداشت کر سکتا ہے۔لہو پانی ایک کرنا، یا لہو سینہ ایک کرنا یہ بھی ہر بھر محنت کرنا زحمت اُٹھانا اور تکلیفیں برداشت کر کے کسی کام کو انجام دینا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے تو لہو پسینہ ایک کر دیا۔ لہو بے حد قیمتی شے ہے اور اُس کے مقابلہ میں پانی یا پسینہ بہت کم قیمت چیز ہے مگر اس نے محنت و مشقت برداشت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لہو پسینہ ایک کر دیا اسی کو لہو پانی کرنا کہتے ہیں ۔لہو خشک ہو جانا جب خوف و دہشت یا شدید نقصان کے خیال سے آدمی سکتہ میں آ جاتا ہے اُس حالت کو لہو خشک ہونا کہتے ہیں اور اسی کے لئے کہا جاتا ہے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ اس کے مقابلہ میں جو ایک نفسیاتی تجربہ یا تجزیہ ہے لہو سفید ہونا خون سفید ہونا ایک سماجی رو یہ پر تبصرہ ہے اور یہ عام طور سے اپنوں کی بے مروتی اور بے تعلقی کی شکایت ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج کل تو عزیزوں کا لہو یا خون سفید ہو گیا ہے یعنی کسی کو کسی سے کوئی جذباتی تعلق یا خلوصِ خاطر نہیں رہا۔ یہ محاورہ شاعرانہ انداز رکھتا ہے لیکن اس میں آپسی تعلقات میں بے مروتی رو یہ کا تذکرہ ہوتا ہے اور اس پر ایک طرح کا طنزیہ تبصرہ ہے۔