اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جاتا ہے یعنی نیزوں آ کرپانی چڑھ گیا جب کہ پانی کی تھوڑی مقدار کو چُلو بھر پانی کہتے ہیں وغیرہ اس سے ہم ناپ تول کے سادہ سطح پر انسانی اور سماجی پیمانوں کا انداز ہ کر سکتے ہیں ۔نیل کی سلائیاں پھیرنا انسانی زندگی میں سزائیں بھی عجیب و غریب رہی ہیں اُن میں اندھا کر دینا بھی ہے اُس کے لئے" آنکھیں نکالنا" بھی ایک عمل تھا"غلام قادر روہیلے" نے نوشاہِ عالم ثانی کی آنکھیں نکال لیں تھیں آنکھوں میں جلتی ہوئی سیخیں داخل کرنا بھی اس کا ذکر الف لیلیٰ کے ایک قصہ میں آیا ہے مُغلوں میں یہ سزا کیسے آئی یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھیر کر اپنے مخالف یا دشمن کو اندھا کر دیتے تھے۔ محاورہ میں اُسی کی طرف اشارہ ہے میر تقی میر نے اپنے ایک شعر میں بھی ایسے کسی المناک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شاہاں کہ کُحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کیانہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیںنیند اُچٹ جانا، نیند لینا، نیند حرام کرنا نیند خوابیدگی کے عالم کو کہتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے سو جانے کو نیند لینا بھی کہا جاتا ہے اور نیند اُچٹ جانا تو کوئی بھی آدمی بے آرامی محسوس کرتا ہے۔ اگر کسی کے شور و فریاد سے نیند نہ آ سکے تو اس کو نیند حرام کرنا کہا جاتا ہے۔ "نیند میں ہونا""آنکھوں میں غنودگی آنا" ہے یعنی نیند جیسی کیفیت عورتوں کی ایک لوری ہے۔ آ جاری نندیا، تو آ کیوں نہ جامیرے مُنے کی آنکھوں میں گھُل مِل جا