اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
فرش سے عرش تک یہ فارسی ترکیب ہے اور ایک طرح کے محاوراتی معنی رکھتی ہے فرش زمین اور عرش آسمان درمیان میں وہ تمام مادی دنیا یا مختلف عناصر سے متعلق وہ ماحول جو خلاء میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرش سے عرش تک کہ تمام اَسرار منکشف ہو گئے تو اُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اِس دنیا میں افق سے تابہ افق جو چکھ ہے و ہ ایک بھید بھری دنیا ہے۔ اور وہ سب بھید منکشف ہو گئے ہیں اکثر صوفیاء کے ذکر میں اِس صورت حال کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ویسے یہ کوئی محاورہ نہیں ہے بیان کا ایک خاص شاعرانہ اسلوب اور صوفیانہ طرزِ ادا ہے۔فرشی حقّہ یہ بھی محاورہ نہیں ہے بلکہ ایک اصطلاح ہے ایسے حقے کو فرشی حقہ کہتے ہیں جس کا وہ حصّہ جس میں پانی بھرا رہتا ہے فرش پر ٹِکا رہتا ہے اِس کے مقابلہ میں پیچواں ایک دوسری طرح کا حقہ ہوتا ہے جس کی نالی بہت لمبی ہوتی ہے اور پیچ در پیچ رہتی ہے اس کو فرش سے اُٹھا کر محفل میں اِدھر اُدھر گھمایا بھی جا سکتا ہے۔ یہی صورت فرشی سلام کی بھی ہے کہ بہت جھک کریا زمین کو چھُو کر جو سلام پیش کیا جاتا ہے اُسے فرشی سلام کہتے ہیں یہ بھی محاورے کے بجائے ایک اصطلاح ہے۔ معاشرتی اور تہذیبی اِصطلاح ہے۔فرعونِ بے سمان مسلمانوں میں بعض ایسے کرداروں کا بھی روایتی طور پر بطورِ محاورہ یا کسی شعر میں بطورِ تلمیح استعمال ہوتا رہتا ہے اُن میں سے افلاطون ایک کردار ہے جو اپنے زمانے کا بہت بڑا فلسفی طبیب اور ماہرِ اخلاقیات تھا یہ" ارسطو" کا اُستاد بھی تھا اسی لئے علمی کتابوں میں اِس کا ذکر بطورِ فلسفی اور حکیم آتا ہے ایک اردو محاورے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا افلاطون بنا ہوا ہے یعنی اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا کسی کی بات نہیں مانتا یہی صورت"فرعون" کے ساتھ ہے۔ وہ مِصر کا بادشاہ تھا اور مِصر کے بادشاہ ہوں کو اُن کے لقب کے طور پر فرعون کہا جاتا تھا ہم فرعون کا ذکر حضرت موسی کے زمانے میں جو فرعون تھا اُس کے حوالے سے کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو بہت بڑا بادشاہ تھا اس کے