اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
وقت ہوتا ہے اور یہی اِس محاورے کی سماج سے اور قوموں کی تاریخ سے ہم رشتگی ہے۔زور پڑنا، زور چلنا، زور دینا، زور پکڑنا، زور مارنا، زور بخشنا وغیرہ "زور" قوت کو کہتے ہیں اِسی سے زوردار لفظ بنا ہے۔ زور داری بھی اردو میں زور کے ساتھ بہت سے محاورے بنتے ہیں اس میں زور و شور ہونا بھی ہے آج کل اِس بات کا بہت زور شور ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام زیادہ تر اُس کی طرف متوجہ ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آج کل کانگریس کا زور ہے یا پھر فلاں پارٹی کا زور ہے زور دینا کسی بات پر اِصرار کرنا زور چلنا قابو پانے کو کہا جاتا ہے جیسا اِس مصرعہ میں کہا گیا ہے۔ ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر زور پکڑنا جیسے بارش نے زور پکڑا اور سماجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ مخالفت نے زور پکڑا دشمنی نے زور پکڑا اُس نے بہت زور مارا یعنی اپنی بات یا اپنے معاملہ پر زور دیا۔ "زور داری" سے کہا یا"زور داری" دکھائی اُس کی بات تو زور دار ہے یہ سب ہمارے سماجی فِقرہ ہیں جو معاشرتی عمل اور ردِ عمل کو پیش کرتے ہیں اُس میں زور بڑھنا اور زور ٹوٹنا بھی شامل ہے۔ زور بخشنا" کسی کو طاقت دینا ہے جیسے نثار نامی شاعر کا یہ مصرعہ ہے۔ حیدرِ کرار نے وہ" زور بخشا"ہے نثار "زور دکھانا" اپنے زیادہ طاقتور ہونے کو اپنی بات چیت یا عمل کو پیش کرنا وہ خواہ مخواہ اپنا زور دکھاتا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ سب محاورے سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں ۔زہر اُگلنا، زہر کھانا، زہر پینا، زہر پلانا، زہر چڑھنا، زہراب ہونا، زہر کا سا گھونٹ پینا، زہر میں بجھا ہوا