اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کام تو خیر پَرائی آنکھیں بھی آ جاتی ہیں اور دوسرے لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے ذہن کی روشنیوں اور اپنے علم کے ذریعہ ہماری مدد کر سکتے ہیں ۔ اور کچھ لوگ کرتے بھی ہیں مگر محاورہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں سے ہی کام لینے پر اکثر مجبور رہنا پڑتا ہے اور یہی بہتر بھی ہے کہ اپنی عقل سے کام لے اپنی سُوجھ بُوجھ کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اپنے ارادے کی مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائے ورنہ دوسروں کا مشورہ ان کی رہنمائی اور عقل گاہ گاہ گمراہی کا باعث بھی بن جاتی ہے کہ لوگ ہمیں دوست بن کر بھی تو فریب دیتے ہیں ۔پَرائے شگون کے لئے اپنی ناک کیوں کٹواتا ہے آدمی کا حال کچھ عجیب ہے بہت سے کام وہ دوسروں سے حِرص کا رشتہ رکھنے کی وجہ سے محض لاگ کے طور پر کرتا ہے کہ تم ایسا کرتے ہو تو ہم ایسا کریں گے اور ایسی صورت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو کچھ میں دوسرے کی مخالفت کے طور پر کر رہا ہوں وہ خود میرے لئے نقصان کی بات ہے۔ بہت بڑے نقصان کی بات ہے اسی کی طرف اِس محاورے کی طرف اشارہ ہے کہ پرائے شگون کی وجہ سے اپنی ناک کیوں کٹواتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا دیکھی کام نہیں کرنا چاہیے اپنی عقل سے بھی کام لینا چاہیے اس میں ایک بات اور بھی قابل لحاظ ہے اور وہ شگون لینا ہے جو توہم پرستی کی ایک صور ت ہے اور قابل تعریف نہیں ہے آدمی اس کی وجہ سے بے عقل اور وہمی ہو جاتا ہے اور اپنے بُرے بھلے اور نفع و نقصان کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتا۔پَرچھاواں پڑنا، پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا پرچھاواں پڑنا بھی اسی طرح کی ایک نفسیاتی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پرچھاواں پڑنے سے بھی آدمی کی عقل خبط ہو سکتی ہے اس کی جڑ بنیاد تو ہمارے ہاں چھوت چھات کے تصور میں ہے کہ اگر کسی آدمی پر چھائی بھی پڑ گئی تو کھانے پینے کی کوئی شئے یا پھر آدمی کا اپنا وجود ناپاک ہو گیا ہم ایسا سوچتے اور سمجھتے آئے ہیں اور یہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ برے آدمی کی پرچھائیں پڑنے سے آدمی کا ا خلاق تباہ ہو جاتا ہے یعنی برے آدمی کی پرچھائیں بھی بری ہوتی ہے ہمارے معاشرتی رویوں میں موقع بہ موقع اس صورت حال کو