اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
چھُپے، چور کی ماں کوٹھی میں سر دیوے۔ اور رو وے۔ چورنی دیدہ، چوری چنکاری یا چوری جاری چوری چکاری یا چوری جاری ہمارے بہت بڑے سماجی عیبوں میں سے ہے۔ اِس سے چوری چھُپے بہت سے بُرے لوگ اپنے ساتھیوں یا غیر ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اُس طریقہ سے سماج میں ناہمواریوں اور عیب داریوں کو رواج دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے پہچانتے یا اُسے جانتے نہ ہوں ۔ اسی لئے ہمارے ہاں ایسے محاورے رائج ہوئے کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا جس کے یہ معنی ہیں کہ چوری کا عیب اگر آدمی کی فطرت میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر ایک سطح پر یہ اُس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ اُسے کہیں نہ کہیں موقع پاکر اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔ اور لوگ قیافے اور قیاس سے یہ پتہ چلا لیتے ہیں کہ یہ کام کس کا ہے اسی وقت کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے جو مجرم ہوتا ہے وہی چھپاتا پھرتا ہے اور اپنی حرکات سے سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ چور محل امراء کے محل کا وہ حصہ ہوتا جہاں چوری چھُپے کسی کو رکھا جاتا ہے رجب علی بیگ سرور نے اُس کو ایک موقع پر"فسانۂ عجائب" میں استعمال بھی کیا ہے کہ اُمراء کے چور محل نہیں ہو پاتے تھے۔ چورنی دیدہ ایسی لڑکی یا لڑکا کہلاتا ہے جو چوری چھُپے دوسروں کو تاکتا جھانکتا رہتا ہے۔ چور پکڑنا بھی اِسی نوعیت کا محاورہ ہے کہ بیماری تکلیف یا رویّہ کا اگر سبب نہیں معلوم ہوتا تو کسی نہ کسی ذریعہ یا وسیلہ یا قیاس یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ برائی یہاں ہے اُسی کو چور پکڑنا کہتے ہیں اِن محاوروں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ سماج کس طرح اپنے انداز پر غور کرتا ہے، کمنٹ کرتا ہے اور کسی عمل یا ردِ عمل پر اپنے تبصرہ کو محاورے یا ذہانت سے بھرنے کمینٹ کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔چوڑیاں پہنانا چوڑیاں پہننا چوڑیاں ٹھنڈی کرنا چوڑیاں ہندوستان کی عورت کا خاص زیور ہے چوڑیاں کانچ کی بھی ہوتی ہیں لاکھ کی بھی، سونے چاندی کی بھی، اور کم درجہ کے کسی میٹریل کی بھی۔