اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
دُرود ہونا بھی دم خم ہونا ہی ہے جیسے اس میں اِتنا دم و دُرود نہیں کہ وہ اتنا کام کر سکے۔ دم کا مہمان ہونا موت سے قریب ہونا کہ وہ تو کوئی دم کا مہمان ہے دم قدم کا ساتھی ہونا ہر حالت میں ساتھ دینا، دم کے دم میں یہ کام ہو گیا۔ ذرا بھی دیر نہیں لگی دم توڑنا موت آ جانا۔ اُس نے راہ میں دم توڑ دیا اور اگر آدمی اپنا سانس روک لے تو اس کو دم چُرانا کہتے ہیں ۔ دم بخود رہ جانا، حیران اور شش در رہ جانا جب کوئی آدمی منہ سے کچھ کہہ بھی نہ سکے۔ اور خاموش رہ جائے۔ آنکھوں میں دم اٹکنے کے معنی ہوتے ہیں ۔ اُس بیمار نے بہت انتظار کیا اور آخر وقت تک اس کا دم آنکھوں میں اٹکا رہا۔ یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ سب سے آخر میں آنکھوں کا دم نکلتا ہے۔ اِن محاورات میں ہمارے معاشرے کاObservationبھی شامل ہے رو یہ اور روش بھی تجربہ اور تجزیہ بھی محاوروں کو اگر اس رشتہ سے دیکھا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آتی ہیں اور ایک معاشرتی جاندار کے اعتبار سے انسان کے عمل اور ردِ عمل کے مختلف معنی اپنے بھید کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔دن کو تارے نظر آنا یا دکھانا، دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھنا یا تارے گننا دن اور رات پر ہمارے یہاں بہت سے محاورے ہیں مثلاً دن نکلنا صبح ہو جانا، دن گننا، وقت کو اس طرح گزارنا کہ ایک ایک دن پر نظر رہے کہ کیا ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا۔ تھوڑا سا دن رہے یعنی جب دن کا بہت تھوڑا سا وقت باقی رہ گیا میر کا شعر ہے۔ صبح پیری شام ہونے آئی میرتو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا بڑھاپے کی صبح شام ہونے کے قریب آ گئی تو نہ جیتا اور بہت کم دن رہا یعنی تجھے ہوش نہ آیا اور دن بہت کم رہ گیا وقت ختم ہو گیا موقع ہاتھ سے نکل گیا اُردو