اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
نہیں چاہے وطن والوں کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے، نہ ہوا تو وہ مثل ہو گئی کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا خوش ہونے والے تو وطن کے لوگ ہوتے ہیں انہی کے سامنے ترقیوں کا مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔جنم سُدھر جانا، جنم جنم کی دوستی، جنم جنم کا بیر، جنم جنم کا ساتھ، جنم میں تھوکنا ہندوستان کے لوگ پنر جنم میں یقین رکھتے ہیں اسی لئے یہاں محاورے میں جنم جنم کا ذکر بہت آتا ہے کہ ایک ہی زندگی میں لگاتار جتنی زندگیاں ہوں گی اُس میں یہ دوستی یہ محبت پایہ پیتر قائم رہے گا اس لئے کہ ہندو عقیدہ کے مطابق ایک جنم کے سنسکار دوسرے جنم میں بھی انسان کے ساتھ رہتے ہیں اسی لئے جنم جنم کی بات سامنے آتی ہے جنم سُدھر نا زندگی بہتر ہو جانے کے معنی میں آتا ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیدائش تو ایک بُرے ماحول میں ہوئی تھی لیکن حالات بدل گئے اور جنم سدھر گیا ایک اور محاورہ اسی سلسلہ کا ہے اور معاشرہ کے اچھے بُرے رو یہ کی طرف عجیب انداز سے اشارہ کرتا ہے جنم میں تھوکنا مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر تمہارے اخلاقی رو یہ اتنے ہی بُرے ہیں تو کوئی کیا تمہارے جنم میں تھوکے گا کیا کہے گا کہ تم کیا ہو تمہارے ماں باپ کیا تھے۔جوبن اُمنڈنا، یا اُبھرنا جوبن سنسکرت لفظ یوون کا بدلا ہوا تلفظ ہے جوانی کے زمانہ کو"یوون" کہتے ہیں اور اُس کا اظہار انسان کے چہرے مہرے اور اعضائے بدن کے تناؤ سے ہوتا ہے بعض لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے زمانہ میں اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُن پر جوانی پھٹتی پڑی ہے جوبن چھایا ہوا ہے یا پھر جوبن طوفان کی طرح اُمنڈ رہا ہے یہ ایک احساسِ مسرّت کی بات بھی ہوتی ہے اور اِس پر رشک بھی کیا جاتا ہے جوانی کا ڈھل جانا بھی ایک ایسی ہی کیفیت ہے جو ڈھلتے ہوئے دن یا ڈھلتی ہوئی رات کی مدھم کیفیت کی طرح ہوتی ہے جیسے کسی پودے درخت یا باغ کی بہار گزر گئی ہو۔ اور خزاں کے آثار اس پر غلبہ پا رہے ہوں ۔