اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جب بچہ کچھ بڑا ہوتا تھا تو گھوڑی چڑھنے کی رسم ادا کی جاتی تھی یعنی پہلے پہل گھوڑی پر سوار ہونا بطورِ تقریب منایا جاتا تھا دہلی میں آج بھی کہیں کہیں اس کا رواج ہے اس سے رسموں کی تہذیبی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے ان کا تاریخی اور سماجی پس منظر سامنے آتا ہے اور یہ بھی کہ محاورے میں کس طرح تہذیب کی تاریخ کو اپنے اندر سمیٹا ہے اور زبان کا سماج سے رشتہ جوڑا ہے گھوڑے جوڑے سے شادی ہونا بھی محاورہ ہے اور اس سے مراد لین دین رسوم و آداب کے ساتھ شادی کرنا ہے۔ اگر محاورے کو سرسری طور پرنہ لیا جائے تو محاورہ ہماری تہذیب و تاریخ کا سماجی زندگی اور معاشرتی ماحول کا جیتا جاگتا عکس پیش کرتا ہے۔ گھوڑے کھولنا انتہائی کوشش کو کہتے ہیں ۔گھونگھٹ کھولنا، گھونگھٹ اٹھانا، گھونگھٹ رہنا، گھونگھٹ کی دیوار ہندوستانی تہذیب میں عورتیں جب اپنی سسرال جاتی تھیں تو دلہن کے چہرہ پر ایک لمبا سا خوبصورت دوپٹہ پڑا رہتا تھا اس کے ایک پلو نقاب کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا منہ دکھائی رسم کے موقع پر گھونگھٹ اٹھایا جاتا تھا دولہا جب اپنی دلہن کا چہرہ پہلی مرتبہ دیکھتا تھا تو اسے گھونگھٹ اٹھانا کہتے تھے جن مردوں کا احترام ملحوظ ہوتا تھا ان کے سامنے ہمیشہ عورت گھونگھٹ نکالے رہتی تھی۔ اور جب گھونگھٹ باقی نہیں رہتا تھا تو اس کے لئے کہتے تھے گھونگھٹ اٹھ گیا۔ دہلی میں لال قلعہ کے لاہوری دروازہ کے سامنے ایک اور سنگین دیوار بنائی گئی ہے اس کو بھی گھونگھٹ کی دیوار کہتے ہیں اسی کا نام" گھونگس" بھی پڑ گیا تھا۔گھی کے چراغ جلانا یا گھی کے چراغ جلنا، گھی کے گھونٹ پینا "گھی"دیہات اور قصبات کی زندگی کا ایک غذائی حوالہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی حوالہ بھی ہے گھی کو ایک زمانہ سے بڑی نعمت خیال کیا جاتا رہا ہے اور ہون میں بھی گھی آگ پر ڈالا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوتاؤں کو گھی پسند ہے اور اس کی خوشبو آگ میں جل کر ان کو پہنچتی ہے اس کی ایک اور صورت گھی کے چراغ جلانا بھی ہے جو انتہائی خوشی کی علامت ہے گھی کے چراغ جلنا بھی مسرتوں سے بھرے کسی خوشی کے موقع یا تقریب کا اظہار ہے۔