اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جھانکتے یعنی کبھی آ کر بھی نہیں پھٹکتے اس کے مقابلہ میں جو آدمی بے غیرتی کے ساتھ کسی کے دروازے پر پڑا رہتا ہے اس کو دہلیز کا کتّا کہتے ہیں اب اس لفظ کا استعمال ہمارے یہاں کم ہو گیا ہے۔ گاؤں والے اپنے تلفظ کے مطابق اس کو دہلیج کہتے ہیں ۔دہلی کے لیولے ڈالنا، یا لے ڈالنا اسی طرح وہ آدمی جو اپنی غرض کے لئے کسی کے دروازے کے چکر لگا تا رہتا ہے اس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ دہلیز کے لیولے لے ڈالتا ہے"لیوڑ" دراصل بدن یا زمین پر الگ سے جو مٹی یا میل کچیل جم جاتا ہے تو اُسے لیور کہتے ہیں اور یہاں لیوڑے لینے کے معنی اُسی کو ہٹا دینے کے ہیں ۔ ہمارے جغرافیائی حالات کا اثر ہماری سوچ پر کس طرح مرتب ہوتا ہے اور ہماری جو معاشی اور معاشرتی زندگی ہوتی ہے اِس سے ہماری فِکر اور ہماری زبان کس طرح کے اثرات قبول کرتی ہے۔دھُوم ڈالنا، دھُوم مچانا، دھُوم ہونا دھُوم دھُوم دَھام حواشی سے تعلق رکھنے والی لفظیات میں سے ہے اسی لئے دھُوم مچانا خوشی کے ساتھ آوازیں نکالنے کو بھی کہتے ہیں کسی اچھی خبر کی شہرت کو بھی کہ اُس کی دھُوم مچ گئی سارے شہر میں دھُوم مچ رہی ہے دھُوم دھام ہو رہی ہے یعنی خوشیوں کا ماحول ہے۔ باجے تاشے بج رہے ہیں زمینداروں جاگیرداروں بڑے بڑے ساہوکاروں بادشاہوں اور نوابوں کے یہاں جب خوشی کے جشن منائے جاتے تھے تو عام طور پر سارے شہر یا علاقے میں دھُوم دَھام کا ماحول ہوتا تھا۔ اِن لفظوں سے بنے ہوئے محاورات کے ذریعہ ہم ماضی میں گزاری جانے والی اپنی معاشرتی اور تاریخی زندگی کے کچھ پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں اور آج بھی یہ صورتِ حال ہوتی ہے تو اُس سے لطف لیتے ہیں اور اُس کا ذکر اچھا لگتا ہے۔دھونس دینا، دھونس میں آنا، دھونس کی چلنا