اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
چھاتی سے لگانا یا چھاتی پھٹنا یا چھاتی کے سائے میں رکھنا محبت اور شفقت کی باتیں ہیں ۔ چھاتی سے لگائے رکھنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے چھاتی ٹھنڈی ہونا سکون ملنا ہے اسی لئے دُعا دی جاتی ہے کہ اللہ پاک چھاتی ٹھنڈی رکھے۔ نفرت اور دشمنی کے جذبات بھی سینہ سے وابستہ کئے جاتے ہیں ۔ جیسے چھاتی پر گھونسا مارنا یا چھاتی پر مونگ ڈالنا یا چھاتی جلنا، چھاتی کوٹنا ماتم کے لئے آتا ہے۔ چھاتی پیٹنے سے بھی یہی مُراد ہے۔ چھاتی پر بال ہونا مَرد کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ اُس کے خون میں آئرن ہونے کی ایک علامت ہے مگر عورت کے لئے نہیں اب عام طور پر مہذب سوسائٹی میں چھاتی پر بال ہونے کا ذکر بھی نہیں آتا۔ دیہات اور گاؤں کی بات الگ ہے۔ جب بہت زخم مل جائیں اور کسی طرف سے طعنہ و تشنیع برابر جاری رہے گویا تیروں کی بارش ہوتی رہے تو محاوروں کے طور پر زخم پڑنا یا چھاتی چھلنی ہونا استعمال کیا جاتا ہے۔ بچہ کی طرف سے دُودھ پینے کی عمل میں عورتوں کے محاورے کے لحاظ سے چھاتی دبانا بھی شامل ہے۔ جنسی اور جذباتی روش میں بھی یہ محاورہ آتا ہے چھاتی اُبھار کر یا نکال کر چلنا ایک طرح کا سماجی اور نفسیاتی طرزِ عمل ہے جس میں اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کارو یہ شامل ہوتا ہے۔ چھاتی چوڑی کرنے کا انداز بھی دراصل محاورتاً یہی اپنی شخصیت کا اظہار ہے۔چھَٹی کا دودھ یاد آنا ہمارے یہاں بچہ کی پیدائش سے متعلق بہت سی رسمیں ہیں اُن میں سے ایک چھٹی کی رسم بھی ہے جو بچے کی پیدائش سے چھ دن بعد ادا کی جاتی ہے۔ اُس میں دُودھ دھُلائی کی رسم شامل ہے۔ جس میں بہنوں یا نندوں کو نیگ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص مصیبت میں پڑتا ہے یا تکلیف اُٹھاتا ہے تو کہتے ہیں کہ چھٹی کا دودھ یاد آگیا یعنی اچھے دن یاد آ گئے بہت پرانی بات یاد آ گئی۔ پُرانی بات یاد آنا زیادہ اہم نہیں ہے جتنا اہم چھَٹی کا دُودھ ہے کہ اُس کا تعلق سماجی رسم سے ہے۔