اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کرتی ہے اور املاک کو قرق کروا لیتی ہے۔ اسی سلسلے میں قرقی آنا، قرق ہونا، قرقی بیٹھنا وغیرہ محاورے استعمال ہوتے ہیں اور اس ذریعہ سے بھی ہم اپنے سماج کی اسٹڈی (Study) کر سکتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک لفظ نا دہندہ ہے (نہ دینے والا) یہ ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے جو قرض نہ دیں اُس کی واپسی کا خیال نہ رکھیں آخر لڑائی جھگڑے اور قرقی کی نوبت نہ آئے۔قسمت اُلٹ جانا، قسمت بازی، قسمت پھرنا، قسمت کا پھیر، قسمت کا دھنی، قسمت کا لکھا وغیرہ وغیرہ قومیں تقدیر کو مانتی رہی ہیں اور تقدیر کے معنی ہوتے ہیں غیبی علم غیب کا فیصلہ غیبی قوت کی کارفرمائی اس کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں ایکStructure Super ذہنی سطح پر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آدمی کی عقل بھی ناقص ہے اور اُس کا کیا دھرا بھی کام نہیں آتا اور ہوتا وہی ہے جو قدرت والا چاہتا ہے۔ حالات کی ناسازگاریوں اور شخصی طور پر نارسائیوں میں گھری ہوئی کوئی انسانی زندگی مجبوراً یہی سوچتی ہے یا سوچ سکتی ہے مشرقی قوموں کی سطح عام طور سے یہی رہتی ہے کہ جو تقدیر کا لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس کو مان کر چلنے میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ آدمی پھر دوسرے کے عمل اور سلسلہ عمل و رد عمل کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے اور پورے معاملہ کو تقدیر کے سپرد کرتا ہے اور اپنے مذہبی نظام فکر سے وابستہ کر لیتا ہے۔ قسمت کے کھیل، قسمت کا دھنی، قسمت کی یاوری بدقسمتی وغیرہ وغیرہ جو محاورے یا محاوراتی انداز کی ترکیبیں اردو میں رائج ہیں وہ سب اپنی نظام فکر کا نتیجہ ہیں جہاں تک تقدیری معاملات کو غیر ضروری تعمیم سے گزارا گیا ہے۔ (Over simplification)