اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
ہو گیا یہ محاورے سماجی رشتوں اور جذباتی اُتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ کہ آدمی اپنے جذبے اپنے احساس اور ذہنی عمل ردِ عمل کو کس طرح پیش کرتا ہے۔قارورہ ملنا، یا قارورہ دیکھنا یہ محاورہ ایک طبی اِصطلاح بھی ہے یعنی بیماری کے عالم میں بیمار کے اپنے پیشاب یا قارورے کو اِس اعتبار سے دیکھنا کہ اس کا معائنہ کرنا اور یہ دیکھنا کہ بیماری کیا ہے کتنی ہے اب یہ باتیں مشین کے ذریعہ ہوتی ہیں پہلے طبیب کی نظر ہی کام کر جاتی تھی۔ وہاں سے آگے بڑھ کر یہ محاورہ میں آئی تو یہ محاورہ بنا کہ ان کا قارورہ نہیں ملتا یعنی مزاج نہیں ملتا طبیعتیں نہیں ملتیں ۔ اِس سے ایک بار پھر یہ بات ذہن کی سطح پر ابھرتی ہے کہ ایک فن کے محاورے لفظیات زبان کے مختلف استعمال اور موقع و محل کے لحاظ سے کس حد تک بدلتی ہے۔قاضی، قاضی الحاجات قاضی قِدوہ، قاضی گِلہ نہ کر سکا "قاضی" ایک ایسے آفیسر کو کہتے ہیں جو نکاح خوانی کا رجسٹر رکھتا ہے اور نکاح پڑھاتا ہے اور اس کا ریکارڈ اُس کے پاس رہتا ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں قاضی کو کچھ خاص طرح کے قانونی اختیارات بھی حاصل تھے اور کچھ مقدمات کا فیصلہ بھی اس کے اختیارات کی حدود میں ہوتا تھا ایک بڑا قاضی ہوتا تھا جو قاضی القضاۃ کہلاتا تھا محاورے قاضیوں سے متعلق عجیب و غریب ہیں مثلاً قاضی قدوہ ہونا، جونپور کا قاضی ہونا یہ روایتاً مشہور ہو گئے اور اب نمونے کے طور پر کہا جاتا ہے اور اُس میں طنز شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑے خاندان اور بہت بڑی چیز سمجھتا ہے۔ یہی معاملہ جونپور کے قاضی کا ہے کہ وہ اپنی مکاری میں مشہور ہو گیا اسی طرح یہ کہاوت کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی اسی طرح قاضی تو کوئی گلہ نہیں کرتا وہ تو نکاح پڑھا دیتا ہے باقی معاملات سے اُسے کیا واسطہ قاضی کا پیادہ معمولی سپاہی کہ وہ کونسا قاضی کا پیادہ ہے یعنی قاضی کے پیادے کی بھی ایک زمانے میں بڑی اہمیت ہوتی تھی آخر تو وہ قاضی کا بھیجا ہوا شہ نہ ادنی درجہ کا سپاہی ہوتا تھا۔