اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
داؤں دینا مکّاری کر جانے کو کہتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ایسے محاورات سے پتہ چلتا ہے کہ محاورے طبقاتی ہوتے ہیں پہلے انہی طبقوں میں رائج ہوتے ہیں جس سے اُن کا خاص تعلق ہوتا ہے رفتہ رفتہ وہ عمومیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں معنیاتی اعتبار سے نئی نئی تہہ داریاں اور پہلو داریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔دائیں بائیں کر دینا، دبی آگ کریدنا، دبی بلی چوہوں سے کان کترواتی ہے۔ یا بھیگی بلی چوہوں سے کان کترواتی ہے دائیں بائیں کرنے کے معنی ہیں اِدھر اُدھر کر دینا یہ ایک اہم سماجی عمل ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں جھگڑے کو وقتی طور پر نمٹانا کہ وہ دونوں آپس میں بُری طرح جھگڑ رہے تھے اُن کو دائیں بائیں کر دیا دوسرے معنی ہوتے ہیں پریشر کو کم کر دینا۔ اس لئے کہ آدمی کی طبعیت پر جب جوکھ ہوتا ہے حالات ناساز گار ہوتے ہیں تو وہ اُس پریشر کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ قابلِ برداشت کڑ اسی لئے بات کو اِدھر اُدھر کر دینا چاہتا ہے خیالات یا سوالات کو بکھیر دینا چاہتا ہے تاکہ ان کا دباؤ یا جماؤ کم ہو جائے۔ دباؤ کو کم کرنا ہماری سماجی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے کہ ہمارے یہاں متعدد محاورے دباؤ سے متعلق ہیں اس کو دباؤ بھی کہتے ہیں اور داب بھی وہ اس کو اپنی داب میں رکھنا چاہتا ہے داب کا لفظ رعب و داب کے ساتھ بھی آتا ہے۔ آگ کو دبا کر رکھا جاتا ہے یہ اس کی حفاظت کی غرض سے ہوتا ہے لیکن دبی آگ کو کریدنا ایک سماجی عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ کہ جو جھگڑے اختلافات اور الجھنیں دبا کر رکھی گئیں تھیں ۔ یعنی اُن پر گفتگو نہیں کی جاتی تھی انہیں چھپایا جاتا تھا اب اگر اسے پوچھا جا رہا ہے بات کو اس رخ پر لایا جا رہا ہے اور ہوا دی جا رہی ہے تو اس عمل کو جو دانستہ اور بڑی حد تک فریب کارانہ ہوتا ہے۔ جب آدمی کسی وجہ سے مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو معمولی لوگ بھی اس کے منہ آنا چاہتے ہیں اُس کا مذاق اڑاتے ہیں اس پر تنقید کرتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ بلّی بچاری کہیں پھنس گئی ہے۔ اور چُوہے جسے اُن کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے وہ اُن کے سرپر سوار ہوتے ہیں بلکہ اس کے کان کترتے ہیں ۔ اِس محاورے کے