اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
بھی ہے کہ محاوروں میں تشبیہہ استعارہ اور کنایہ جو کام کرتے ہیں اُن کا تعلق گاہ گاہ ہماری شعری حیثیت سے ہوتا ہے۔ردیف "ز" زارزار رونا، زار و قطار رونا، زار و نزار یہ بھی ایک طرح کی شاعری ہے یا شاعرانہ اندازِ نظر ہے کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہیں تو اُسے"زار و قطار" رونا کہا جائے۔ "زارِیدن"کے معنی فارسی میں رونے کے ہیں اُسی سے"زار زار" اور قطار" کو شامل کرتے ہوئے زار و قطار رونا کہا گیا ہے۔ جیسے"گر یہ بے اختیار بھی"کہتے ہیں یعنی جب رونے پر کوئی قابو نہ ہو اور عالم بے اختیاری میں آنسو بہ رہے ہوں اور مسلسل رونے کا عالم ہو۔ "زار و نزار" اس کے مقابلہ میں بہت کمزور آدمی کو کہتے ہیں جب اِس میں تاب و تواں نہ رہے وہ اپنے آپ کو سنبھال بھی نہ سکے کہ اُن کی حالت تو بہت ہی زار ہے وہ زار و نزار ہو رہے ہیں ۔ یا"زار و نزار" نظر آتے ہیں ۔